• news

چودھری سرور کیلئے ایک غیر سیاسی ذاتی کالم

میں چودھری محمد سرور کو سابق گورنر نہیں کہوں گا کہ میں انہیں گورنر بھی نہیں کہتا تھا۔ وہ گورنر ہائوس کے باہر چودھری سرور تھے۔ گورنر ہائوس کے اندر بھی چودھری سرور تھے۔ وہ چودھری سرور ہیں اور چودھری سرور رہیں گے۔ چودھری محمد سرور ایک شخصیت کا نام ہے۔ ایک کریکٹر ایک لیڈر ایک انسان کا نام ہے۔ میں گورنر ہائوس میں بہت کم آتا جاتا ہوں مگر میں چودھری سرور سے ملنے جاتا تھا اور میری ملاقات آغا مشہود شورش کاشمیری سے بھی ہو جاتی تھی۔ میں یہ کالم ایک ذاتی تعلق کے حوالے سے لکھ رہا ہوں۔ وہ گورنر ہائوس میں نہیں تھے تو بھی ایک بڑے آدمی تھے۔ اچھے آدمی تھے۔ وہ گورنر ہائوس میں نہیں ہیں تو بھی ایک بڑے آدمی ہیں۔ اچھے آدمی ہیں۔ وہ جب کبھی پاکستان آئے تو اپنے گھر میں آئے۔ اپنے لوگوں کے لئے ایک درد لے کے آئے۔ ان کے پاس درد و غم کا ایک حل بھی ہے۔ انہوں نے بہت فلاحی کام کئے ہیں۔ تعمیری کام کئے ہیں۔ حکمرانوں کو بھی اس طوف متوجہ کیا ہے بلکہ ان سے یہ کام کروائے ہیں۔ جب وہ گورنر پنجاب بنے تو حکمرانوں سیاستدانوں اور افسرانوں سے یہ کام نہ کروا سکے۔ میں نے افسرانوں کا لفظ افسران کے لئے استعمال کیا ہے کہ یہ سیاستدانوں اور حکمرانوں سے کچھ بڑھ کر ہیں۔ اصل میں تینوں ایک ہیں۔ میں افسران بالا کو افسران تہ و بالا اور بیورو کریسی کو برا کریسی کہتا ہوں۔ چنگا نہ کریسی برا کریسی۔ حکرانوں کو بے بس بھی انہوں نے کیا اور بدنام بھی انہوں نے کیا ہے۔ یہ مجرموں اور ظالموں کے ساتھی ہیں۔ جسے چودھری سرور نے لینڈ مافیا اور قبضہ گروپ کہا ہے ان کے سرپرست اور مددگار یہی لوگ ہیں۔ یہ پولیس افسران تو افسران سے بھی کچھ آگے ہیں۔
چودھری سرور نے کہا کہ قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا گورنر سے زیادہ طاقتور ہیں مگر میں اعلان کر کے کہہ رہا ہوں کہ وہ چودھری سرور سے زیادہ طاقتور نہیں ہیں۔ استعفیٰ تو آج کل شاہد خاقان عباسی کو دینا چاہئے تھا۔ کچھ لوگ اسحاق ڈار اور خواجہ آصف سے بھی مطالبہ کر رہے تھے مگر استعفیٰ چودھری محمد سرور نے دے دیا۔ حالانکہ انہوں نے بتایا کہ شہباز شریف نے استعفیٰ واپس لینے کے لئے کہا۔ جس چودھری سرور کو میں جانتا ہوں کہ جب انہوں نے کوئی ارادہ کر لیا تو پھر اپنی آواز کو بھی ساتھ ملا لیا۔ ارادہ اور آرزو مل جائیں تو پھر بندے کو بہت کچھ مل جاتا ہے۔
ایک اور بات جس نے مجھے گھائل کیا کہ میں ان کا قائل تو بہت پہلے کا ہوں۔ ان کی طرف مائل بھی ہوں۔ وہ جب گورنر ہائوس سے جا رہے تھے تو پورے سٹاف سے ملے بلکہ پورا سٹاف ان سے ملا۔ گورنر ہائوس کے چھوٹے بڑے اہلکار اور افسران کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ میں نے ایک بظاہر بہت چھوٹے ورکر سے چودھری سرور کے لئے پوچھا تو اس نے بہت عجیب اور دلچسپ بات کی۔ جس میں تعلق اور نسبت کی خوشبو تھی۔ وہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ اپنے اپنے لگتے ہیں۔ یہ جملہ گورنر کے بارے میں کہا گیا تو ان کے لئے کسی اور بات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ میں نے پوچھا کیوں اچھے اور اپنے لگتے ہیں تو اس نے بے ساختہ کہا کہ ان سے ڈر نہیں لگتا ورنہ ہم تو لطیف کھوسہ سے بھی ڈرتے تھے۔ یہ جملہ ایک گورنر کے لئے بہت بڑا خراج تحسین ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آخری لمحوں میں وہ سب کے ساتھ گلے مل رہے تھے اور آبدیدہ تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ گورنر ہائوس کو ہائوس بنانے آئے تھے۔
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
میں نے ان کے چہرے پر جدائی کا دکھ دیکھا۔ گورنر ہائوس سے جانے کا انہیں کوئی ملال نہیں تھا۔ صرف یہ کہ وہ گورنر کی حیثیت سے دکھی لوگوں کے لئے کچھ کر نہ سکے۔ ان کے یہ الفاظ ان کے دل کی ترجمانی کرتے ہیں کہ میرا دل بہت دکھی ہے۔ آدمی وہی اچھے ہیں جو ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ نامور سکالر خلیل جبران نے کہا کہ تم جس کے ساتھ مل کر ہنسے ہو اسے بھول سکتے ہو جس کے ساتھ مل کر روئے ہو اسے نہیں بھلا سکتے۔ چودھری صاحب کا خیال ہے کہ وہ انہیں بھی نہیں بھلاتے جس کے ساتھ مل کر ہنسے ہوں۔ گورنر ہائوس کے لوگ چودھری سرور کو کبھی نہ بھلا پائیں گے۔ چودھری سرور گورنر ہائوس سے جا رہے تھے۔ اپنے گھر سے جا رہے ہیں مگر گورنر ہائوس تو تب بھی ان کا گھر نہ بنا جب وہ یہاں رہتے تھے۔ رزق حلال سے انہوں نے اتنا کمایا ہے کہ وہ گورنر ہائوس خرید سکتے ہیں ۔
مجھے میاں محمد اظہر بھی یاد آتے ہیں میں انہیں کبھی گورنر ہائوس میں نہ ملا مگر ان بچوں سے ملا ہوں جو میاں اظہر سے ملے تھے۔ بچے گورنر ہائوس کو چلڈرن پارک سمجھنے لگے تھے۔ اس کے بعد کبھی کوئی بچہ میں نے گورنر ہائوس میں نہ دیکھا۔ ایک گورنر میرے میانوالی کے بھی تھے۔ ملک امیر محمد خان۔ نواب کالا باغ۔ وہ اپنے ڈسپلن انتظامی صلاحیت اور اپنی ریت روایت کے مطابق زندگی بسر کرتے تھے۔ گورنر ہائوس کو کبھی اپنے کالا باغ والے گھر سے الگ نہ سمجھا مگر یہاں ان کے آنے پر پابندی تھی۔ شراب اور شباب یہاں نہ آ سکتے تھے۔ میں کبھی ان سے نہ ملا مگر وہ مجھے اچھے لگتے ہیں۔ میرے مرشد و محبوب مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی انہیں پسند کرتے تھے۔ جابر سلطان کے آگے ہمیشہ کلمۂ حق بلند کرنے والے نے کچھ تو اس ’’سلطان‘‘ میں دیکھا ہو گا۔ 65ء کی جنگ ستمبر میں وہ لاہور میں گھومتے تھے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کا گورنر ان کے ساتھ موجود ہے جبکہ کئی امیر کبیر سیاستدان لاہور چھوڑ کے چلے گئے تھے۔  65 کی جنگ کے بعد کسی شے کی قیمت میں ایک پیسہ بھی اضافہ نہ ہونے دیا تھا۔ اور گورنر عبدالرب نشتر صبح سویرے پروٹوکول اور سکیورٹی کے بغیر باغ جناح میں سیر کیا کرتے تھے۔
چودھری محمد سرور کے دنوں میں کتابوں کی تقریب اور دوسرے تخلیقی اور تہذیبی اجلاس گورنر ہائوس میں منعقد ہونے لگے تھے۔ میں بھی کئی بار شریک ہوا۔ مجید نظامی، مجیب شامی، انتظار حسین، حسین نقی، بشریٰ رحمان، بشریٰ اعجاز، توفیق بٹ اور دوسرے شاعر ادیب یہاں آتے رہے۔ دانشوروں ادیبوں شاعروں کے درمیان چودھری سرور کی تقریر سننے والی ہوتی تھی۔ ماحول ایسا بن گیا تھا کہ دوست یہاں آنے جانے میں آسانی اور عزت محسوس کرتے تھے۔ چودھری سرور کی موجودگی ایک انوکھی آسودگی بن جاتی تھی۔
مگر یہ بات نجانے چودھری صاحب نے کس دل سے کہہ دی کہ انہوں نے یہاں وقت کرب میں گزارا ہے۔ ملک میں انصاف نہیں ملتا۔ لوگوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔ ظلم اور جرم کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ ان کا یہ جملہ ان کی ساری بے قراری کا ترجمان ہے۔ ’’اس ملک میں سچ کا قحط ہے۔‘‘ ایک جھوٹی زندگی ہمارا مقدر بن کے رہ گئی ہے۔ چودھری سرور کی پیشانی پر سچ لکھا ہوا ہے۔ یہ سچ ہمیں ضرور نصیب ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن