پی ٹی آئی توقعات پر پورا اتری نہ ہی حامد خان پارٹی الیکشن صحیح طور پر کرا سکے: جسٹس (ر) وجیہہ
کراچی (آئی این پی) سپریم کورٹ کے سابق جج اور پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی میری توقعات پر پورا نہیں اتری، میرے پارٹی میں شامل ہونے کے بعد پارٹی کا گراف بڑھنا شروع ہوا تھا، حامد خان پارٹی الیکشن صحیح طریقے سے نہیں کرا سکے، تسنیم نورانی کمشن نے انٹرا پارٹی الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی واضح نشاندہی کی تھی، ہم پارٹی کی سندھ کابینہ کو فارغ کرنا چاہتے تھے لیکن وہاں بیٹھے لوگ یہ نہیں چاہتے تھے، عمران خان کے مطالبہ پر بننے والے جوڈیشل کمشن میں حاضر سروس یا ریٹائر ججز ضرور ہونے چاہئیں وکلاءاور قانون دان بھی اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ عمران خان بنیادی طورپر آئیڈلسٹ ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ لوگ ایماندار، باکردار ہوں اور شفاف زندگی کے حامل ہوں، ارسلان افتخار کے معاملے سے عدلیہ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان میں جمہوری حکومتیں کام کرتی ہیں اور نہ فوجی آمر کام کرتے تھے۔ یہاں صرف باتیں ہوتی ہیں، طاہرالقادری کے دھرنے میں شرکت کی ہم نے مخالفت کی تھی، عمران خان کی شادی ان کا ذاتی معاملہ ہے، تبصرہ نہیں کروں گا۔ موجودہ عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی ختم نہیں کی جاسکتی، سول عدالتوں کا نظام بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ جب میں پارٹی میں شامل ہوا تو عمران خان نے کراچی سے جاتے ہوئے مجھے فون کیا کہ آپ کے آنے کے بعد ہماری پارٹی کی ویب سائٹ پر اندرون اور بیرون ملک جتنی کلک ہوئیں، اتنی کبھی نہیں ہوئی تھیں۔ روایتی حلقے رکھنے والے سیاستدانوں نے بھی پارٹی میں آنے کی کوششیں شروع کردیں۔ مجھ سے ان کی شمولیت کے بارے میں پوچھاگیا تو میرا جواب تھا کہ ان میں سے جو بہتر لوگ ہیں ٹھیک ہے انہیں آنے دو۔ پھر نہ صرف وہ چند لوگ آئے بلکہ کافی تعداد میں وہ لوگ بھی آگئے جو مسلم لیگ (ن) اور (ق) لیگ کا پس منظر رکھتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے لوگ اتنے نہیں آرہے تھے، اب تو وہ بھی آرہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور (ق) لیگ کا تشخص پاکستان کی روایتی سیاست کا ہے اس لئے پی ٹی آئی میں بھی یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ عمران کو اس بات کا احساس تھا لیکن ان کی مشکل یہ تھی کہ وہ بیک وقت پارٹی کی تنظیم سازی اور سیاست نہیں کرسکتے تھے۔ اس صورتحال میں بھی مارچ 2013ءمیں انٹرا پارٹی الیکشن ہوئے۔ جس طریقے سے یہ انتخابات ہوئے، وہ چار سال کی مدت کے بجائے جلد ہونے چاہئیں۔ پی ٹی آئی کے اندر میری چیئرمین شپ میں نظرثانی کمیٹی بنی تھی جس میں ہم نے یہ سفارش کی کہ پارٹی انتخابات ہر دو سال کے بعد ہونے چاہئیں۔ ان سب باتوں کو سامنے رکھتے ہوئے ٹریبونل نے فیصلہ کیا کہ اگلا پارٹی الیکشن دو سال کے بعد ہو جو مارچ 2015 کی درمیانی تاریخ بنتی ہے۔ ہم عہدوں پر فائز لوگوں کو ڈسٹرب کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس سے پارٹی کا نظم و ضبط متاثر ہوتا۔ دوسری طرف انتخابات لڑنے کے خواہش مند بہت سے دوسرے لوگ پارٹی میں داخل ہونے کو تیار بیٹھے تھے اور چاہتے تھے کہ انہیں مختلف عہدوں پر تعینات کردیا جائے تو ہم نے الیکشن کو الگ رکھا۔
جسٹس (ر) وجیہہ