• news

’’تخت لاہور‘‘ کے’’ آداب شاہی‘‘ سے ناواقف گورنر

13،14 ماہ قبل کی بات ہے برطانیہ میں ہائی کمشنر کی تقرری کے لئے جہاں بہت سارے نام لئے جارہے تھے وہاں ان میں چوہدری محمد سرور کا نام بھی لیا جارہا تھا وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے میرے استفسار پر بتایا کہ’’ وہ ہائی کمشنر کی دوڑ میں شامل نہیں وہ برطانی شہریت ترک کررہے ہیں انہیں پاکستان میں ہی اہم عہدہ دیا جا رہا ہے اگرچہ انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ ان کو گورنر پنجاب بنایا جارہا ہے لیکن انہوں نے چوہدری محمد سرور کو گورنر پنجاب بنائے جانے کا اشارہ دے دیا تھا۔ میں نے چوہدری محمد سرور کے برطانوی شہریت چھوڑ کر پاکستان میں اہم عہدہ قبول کرنے کی خبر فائل کی تو کوئی اس بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھاکہ چوہدری محمد سرور برطانوی شہریت کو چھوڑ کر پاکستان آجائیں گے چوہدری محمد سرور کو گورنر بنانے کی تجویز چوہدری نثار علی خان نے دی تھی جنہوں نے وزیر اعظم محمد نواز شریف کو ان کے احسانوں کا بدلہ چکانے کا مشورہ دیا یہی وجہ ہے انہوں نے استعفا دینے کے بعد جن دو شخصیات کاشکریہ ادا کیا ان میں میاں نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان شامل تھے پنجاب کی گورنری معمولی منصب نہیں برطانیہ میں تین بار ایوان زیریں کارکن منتخب ہونا ان کے لئے بڑے اعزاز کی بات نہیں تھی جو ان کو اپنے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی آئینی سربراہی میں ملا تھی سو انہوں نے کوئی تردد کئے بغیر اس منصب کو قبول کر لیا ۔ وہ برطانوی سیاست میں مقام پیدا کرنے والے چند پاکستانیوں میں ایک ہیں اگر کوئی یہ کہے کہ انہیں گورنر کے اختیارات کا علم نہیں تو یہ بات درست نہیں انہیں گورنر کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے قبل اپنی ’’ڈومین‘‘ کا پوری طرح علم تھا دراصل انہوں نے اپنے لئے غلط منصب کا انتخاب کرلیا گورنری کا ’’جاہ وجلال ‘‘ تو ہوتا ہی ہے لیکن موجودہ آئین کے تحت صوبے کا حکمران گورنر نہیں وزیر اعلیٰ ہوتا ہے انہیں اس وزیر اعلیٰ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہوا ہے جو اپنے اختیارات میں کسی کی مداخلت برداشت کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اپنے اوپر سوار ہونے دیتے ہیں۔ چوہدری محمد سرور جیسے سیاست دان کے لئے گورنر ہائوس ’’قیدخانہ‘‘ سے کم نہ تھا۔ لہذا وہ اکثر و بیشتراپنی ’’ڈومین‘‘ سے باہر کھیلتے رہتے تھے رواداری اور وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے باہمی عزت و احترام کے رشتے کے باعث ان کی باتوں کا نوٹس نہیں لیا لیکن جب انہوں روا روی میں عوامی سطح پر امریکی صدر باراک اوبامہ کے دورہ ء بھارت کے تناظر میں اپنی ہی حکومت کی خارجہ پالیسی کو ناکام قرار دے دیا جس کے وہ پنجاب میں نمائندے تھے تو وزیر اعظم محمد نواز شریف جو پہلے اوبامہ کے لگائے ہوئے چرکے پر تلملائے بیٹھے تھے انہوں نے اپنے ہی گورنر کی تنقید کا برا منایا گئے وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت مری میں ہونے والے ’’کچن کیبنٹ‘‘ (جو میاں نواز شریف،میاں شہباز شریف،چوہدری نثار علی خان اور محمد اسحق ڈار پر مشتمل ہے ) کے اجلاس میں گورنر پنجاب سے استعفا لینے فیصلہ کر لیا گیا اگرچہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے کہا ہے کہ’’ ا ن پر استعفا دینے کے لئے دبائو تھا اور نہ ہی ان سے کسی نے استعفا مانگا ہے ۔‘‘جب گورنر پنجاب کے استعفا کی بریکنگ نیوز ٹیلی کاسٹ ہوئی تو وفاقی وزارت اطلاعات نے گورنر پنجاب کے از خودمستعفی ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی بلکہ مختلف ٹی وی چینلوں کے ذمہ داران سے کہا گیا کہ چوہدری محمد سرور سے استعفا لیا گیا ہے اسی روز وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویزرشید جب پی آئی ڈی میں پریس کانفرنس کے بعد ڈائس سے نیچے اترے تو میں نے ان سے گورنر پنجاب کے استعفے کے بارے میں سوال کر ڈالا کہ’’کیا گورنرپنجاب نے از خود استعفا دیا ہے یا ان سے استعفا لیا گیا ہے‘‘ تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان سے استعفا لیا گیا ہے تاہم انہوں نے استعفے کی وجوہات بتانے سے گریز کیا۔ میں چوہدری محمد سرور کو گذشتہ دو عشروں سے زائد جانتا ہوں وہ جب بھی برطانوی ایوان زیریں کے رکن کی حیثیت پاکستان آیا کرتے تومیں انہیں راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے صدر کی حیثیت سے ’’ میٹ دی پریس‘‘ پروگرام میں مدعو کرتا تھا جب میں پہلی بار 2001ء میں برطانیہ
گیا تو انہوں نے ہی مجھے ’’ہائوس آف کامنز ‘‘ کی کارروائی دکھائی۔ مجھے کم وبیش 4گھنٹے تک ایوان کی کارروائی دیکھنے کا موقع ملا چوہدری محمد سرور ایک ’’کھلے ڈلے‘‘سیاست دان ہیں ان کی محفل کشت زعفران بنی رہتی ہے قہقہوں کی گونج کے بغیر ان کی محفل نامکمل ہوتی ہے جب جنرل (ر) پرویز مشرف نے نواز شریف کی جمہوری حکومت پر شب خون مارا تو یہ چوہدری محمد سرور ہی پہلے برطانوی رکن پارلیمنٹ تھے جو معزول وزیر اعظم محمد نواز شریف کی خیریت دریافت کرنے پاکستان آئے برطانوی حکومت کے دبائو پر جنرل (ر) پرویز مشرف نے چوہدری محمد سرور کو وزیر اعظم محمد نواز شریف سے ملاقات کی اجازت دے دی جو اس وقت چھائونی میں قید تھے انہوں نے کئی روز سے سورج کو نہیں دیکھا تھا کسی کو ان کی زندگی کے بارے کچھ علم نہیں تھا یہ چوہدری محمد سرور ہی تھے جنہوں نے محمد نواز شریف کے زندہ ہونے کی تصدیق کی چوہدری محمد سرور نے اپنی بساط کے مطابق میاں نواز شریف کی رہائی اور انہیں قانون کی عدالت میں کھڑا کرنے کے لئے پرویز مشرف حکومت پر سفارتی دبائو ڈلوایا یہیں سے شریف برادران سے ان کے قریبی تعلقات کا دور شروع ہوا انہوں نے شریف برادران کی برطانیہ میں جلاوطنی کے ایام میں حتی المقدور خدمت کی برطانیہ کے ’’پاور کاریڈورز ‘‘ میں رسائی کے باعث وہ شریف برادران کے راستے میں کانٹے چنتے رہے جب محمد نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے تو ان کے احسانات کا بوجھ اتارنے کا وقت آگیاانہیں گورنر تو بنا دیا گیا لیکن بہت جلد دونوں اطراف کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ ان سے کوئی غلطی ہو گئی ہے وہ جو بات چوہدری محمد سرور کی حیثیت سے کرتے تھے وہ انہیں گورنر کی حیثیت سے نہیں کرنی چاہیے تھی وہ اپنی نجی محفلوں میں اپنی بے اختیاری کا رونا روتے رہتے تھے انہیں اس بات کا بھی شکوہ تھا کہ ان کی وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کم کم ملاقات ہو تی ہے انہوں نے بے توقیری کا ذکر ڈاکٹر طاہر القادری سے بھی کیا جب وہ حکومت کا اہم پیغام لے کر ان کے پاس گئے تھے وہ اکثر اوقات ٹیلی ویژن پروگراموں میں بھی گورنری قبول کرنے کو اپنی غلطی قرار دیتے تھے وہ گورنری سے مستعفی ہونے پر احباب سے مشاورت بھی کرتے رہے ہیں ان کی نجی محافل کی گفتگو بھی شریف برادران تک پہنچتی رہی اس طرح کافی دنوں سے ان سے تعلقات میں گرمجوشی سرد مہری میں تبدیل ہو گئی تھی ان کے امریکی صدر بارک اوبامہ کے دورہء بھارت کے حوالے سے ریمارکس ان سے استعفاٰ لینے کا باعث بن گئے 13 ماہ کی گورنری سے انہوں نے بہت کچھ سیکھا ہے ان کے حصے میں نیک نامی ہی آئی ہے لیکن وہ ’’تخت لاہور‘‘ کے آداب شاہی سے شاید ناواقف تھے یا جان بوجھ کو انہوں نے ایسا طرز عمل اختیارکیا جو ان کی حکومت سے علیحدٰگی کا باعث بن گیا گورنر پنجاب کی حیثیت سے وہ ’’طاقت ور لینڈ مافیا‘‘کا کچھ نہیں بگاڑ سکے اس بات کا انہوں نے برملا اعتراف کیا ہے ممکن ہے وہ پریس کانفرنس میں پھٹ پڑتے لیکن سابق صوبائی وزیر رانا ثنا اللہ نے انہیں نواز شریف حکومت کے خلاف کوئی بات کہنے سے روک دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کب تک ’’خاموشی‘‘ اختیار کئے رکھتے ہیں چوہدری محمد سرور کے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے ذاتی مراسم ہیں انہوں نے دھرنا ختم کرانے کے لئے اپنی بساط کے مطابق کوششیں بھی کیں لیکن انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ان کی لندن میں ڈاکٹر طاہر القادری ،عمران خان اور چوہدری برادران سے ملاقات کے حوالے سے بھی افواہیں گشت کرتی رہیں جو ان کے شریف برادران سے تعلقات میں فاصلے پیدا کرنے کا باعث بن سکتی تھیں لیکن انہوں نے افواہوں کی بروقت وضاحت کر کے مزید غلط فہمیوں کو ختم کر دیا چوہدری محمد سرور واحد شخصیت تھے جن کی ڈاکٹر طاہر القادری بات سنتے تھے یہ الگ بات ہے انہوں نے ان کی کس حد تک باتیںمانیں ؟ لیکن اسی وقت یہ بات کہی جانے لگی تھی کہ چوہدری محمد سرور کی گورنری کے دن گنے جا چکے ہیں بالآخر وہ دن آہی گیا جب چوہدری محمد سرورکو گورنر ہائوس کی قید سے رہائی مل گئی لیکن یہ’’ رہائی‘‘ اچھے ماحول میں نہیں ہوئی چوہدری محمد سرور میاں نواز شریف کے برے دنوں کے دوست تھے اچھے دن زیادہ دیر تک اکٹھے نہ گذار سکے سیاسی مخالفین کو چوہدری محمد سرور کی گورنری سے علیحدگی پر انگلیاں اٹھانے کا موقع مل گیا ہے چوہدری محمد سرور کے بارے یہ بات کہی جا سکتی ہے تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی ہے۔ رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے ۔

ای پیپر-دی نیشن