قومی اسمبلی: پٹرول پر جی ایس ٹی میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ، شیخ رشید کے خلاف حکومتی، اپوزیشن ارکان متحد
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر+ نیشن رپورٹ+ ایجنسیاں) قومی اسمبلی میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کی پارلیمنٹ سے باہر ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کی گئی تقاریر کی وجہ سے سپیکر قومی اسمبلی اور حکومتی و اپوزیشن ارکان کے غیظ و غضب کا نشانہ بن گئے، سپیکر نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے سے روکدیا۔ آن لائن کے مطابق اپوزیشن نے پٹرولیم بحران پر قومی اسمبلی میں سخت احتجاج کیا اور تحقیقات کرکے ذمہ داروں کو سامنے لانے کا مطالبہ کیا، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا چار بیوروکریٹس کو ہٹاکر حکومت بری الذمہ نہیں ہوسکتی، پٹرول کی قیمت 70 روپے سے بھی کم ہونی چاہئے۔ بجلی کا بحران بالکل نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت آخر دھکے دے کر اسمبلی ارکان کو باہر سڑکوں پر کیوں پھینک رہی ہے جی ایس ٹی میں دو مرتبہ 5 فیصد اضافہ کیا گیا۔ ہم پارلیمنٹ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں لیکن حکومت نہیں کرتی۔ پیپلزپارٹی نے مہنگی ایل این جی درآمد کرنے کی بجائے ایران سے سستی گیس کا معاہدہ کیا۔ چیف جسٹس نے سوموٹو ایکشن لے کر معاہدے کو روک دیا تھا۔ 27 فیصد جی ایس ٹی عوام پر بہت بڑا ظلم ہے، پیپلزپارٹی 15 فیصد ٹیکس پر پہنچی تھی تو جگا ٹیکس کہا جاتا تھا اور آج 120 ارب روپے ٹیکس کے طور پر غریب عوام کی جیبوں سے نکالے جارہے ہیں آج بجلی 4 روپے فی یونٹ پڑ رہی ہے لیکن 13 روپے میں فروخت کی جا رہی ہے نیشن رپورٹ کے مطابق اپوزیشن نے مطالبہ کیا پٹرول پر جی ایس ٹی میں اضافہ واپس لیا جائے۔ سٹاف رپورٹر کے مطابق وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے بتایا پٹرول کی قلت کا تعلق مالی امور سے نہیں۔ مستقبل میں ایسی صورتحال کا سامنا نہیں کرنے پڑا گا۔ قومی اسمبلی کو بتایا گیا سمگل شدہ گاڑیوں کی ایمنسٹی سکیم پر عمل کے دوران 32گاڑیوں کے ایسے فراڈ کا انکشاف ہوا جو ملک میں لائی نہیں گئی لیکن پہلے ہی جعلی کاغذات پر انہیں کلیئر کرا لیا گیا۔ اس سکینڈل میں ملوث کسٹمز کے انچاس ملازمین کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے ہیں اور قومی خزانہ کو نقصان پہنچانے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ آن لائن کے مطابق خورشید شاہ نے کہا پچھلے کئی دنوں سے ہم دیکھ رہے ہیں وزارتیں ایک دوسرے پر الزام لگا رہی ہیں اور معلوم ہے حکومت جان بوجھ کر ایسی بدنامی کو اپنے سر نہیں لے گی لیکن یہ حکومت کی ناکامی ہے کہ ایک مسئلے سے نکل کر دوسرے مسئلے میں پھنس جاتی ہے۔ حکومت بتائے آخر بحران کیوں پیدا ہوئے۔ آئل میں پی ایس او 60 فیصد اور باقی کمپنیاں 40 فیصد شیئر کرتی ہیں۔ پٹرول بحران سے توانائی پر بھی فرق پڑا جو حکومت کی ناکامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ ہم پارلیمنٹ ہائوس میں تقریریں کرکے تھک گئے ہیں لیکن مجال ہے حکومت کے کانوں پر مسائل کے حل کیلئے جوں تک بھی رینگی ہو۔ آج ہم وزیراعظم ہائوس جائیں یا پھر کسی اور جگہ؟ ایم کیو ایم کے مزمل شاہ نے کہا پٹرول بحران حکمرانوں کی غفلت کی وجہ سے پیدا ہوا حکومت کراچی میں کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھا رہی۔ پٹرول بحران پر اپوزیشن ارکان تنقیدی تقاریر کر رہے تھے کہ قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے نکتہ اعتراض پر کہا وفاقی وزیر پٹرولیم ایوان میں موجود نہیں اسلئے اس ایجنڈے کو آج بدھ تک کیلئے موخر کردیا جائے۔ بعدازاں ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے ایوان کی کارروائی (آج) صبح 11 بجے تک ملتوی کردی۔ قبل ازیں آئی این پی کے مطابق خورشید شاہ کی جانب سے شیخ رشید کو بولنے کی اجازت دینے کے مطالبے پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے نو نو کے نعرے لگائے۔ شیخ رشید دو دفعہ واک آئوٹ کیلئے اُٹھ کر راستے سے واپس آگئے بالآخر خورشید شاہ کی منت سماجت پر سپیکر نے شیخ رشید احمد کو بولنے کی اجازت دیدی، سپیکر نے اس موقع پر کہا شیخ رشید احمد پارلیمنٹ اور ارکان کو بُرا بھلا کہتے ہیں تو پھر انہیں پارلیمنٹ میں نہیں بیٹھنا چاہئے یا اپنے الفاظ واپس لینے چاہئیں۔ شیخ رشید احمد نے نکتہ اعتراض پر بات کرنے کی اجازت چاہی تو سپیکر نے انکار کردیا۔ شیخ رشید نے کہا نکتہ اعتراض نہیں تو پھر انہیں پٹرول بحران پر بات کرنے کی اجازت دی جائے۔ سپیکر نے کہا آپکو اپنی باری پر نمبر مل سکتا ہے آپ کی ایک سیٹ ہے اور آپ چاہتے ہیں آپ کو ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، جے یو آئی اور دیگر پارلیمانی پارٹیوں سے پہلے اجازت دی جائے، رولز اس کی اجازت نہیں دیتے۔ شیخ رشید نے کہا میں گزشتہ متعدد اجلاسوں سے بولنے کی اجازت مانگ رہا ہوں مگر آپ اجازت نہیں دے رہے ، میں ایوان میں آپ کو بددعا دے کر جارہا ہوں ، آپ اس عہدے کیلئے اہل ہی نہیں ہیں ، اس کے ساتھ ہی شیخ رشید واک آئوٹ کے لئے ایوان سے باہر جانے کیلئے چل پڑے لیکن خورشید شاہ نے شیخ رشید کی حمایت کرتے ہوئے کہا انہیں بولنے کی اجازت دی جائے۔ بطور رکن اس کا استحقاق ہے، اگرچہ انہوں نے پارلیمنٹ کے دیگر ارکان سمیت میرے خلاف بھی تقریریں کی ہیں لیکن بطور اپوزیشن لیڈر میری ذمہ داری کہ میں نہ چاہتے ہوئے بھی ان کے لئے بولنے کی اجازت چاہوں کیونکہ میں اپوزیشن رکن کا تحفظ نہ کرسکوں تو پھر مجھے اپوزیشن لیڈر رہنے کا کوئی حق نہیں ۔ خدا را آپ میری مجبوری سمجھتے ہوئے شیخ رشید کو ایک دو منٹ کیلئے بولنے کی اجازت دیں اس موقع پر وزیر مملکت شیخ آفتاب نے بھی خورشید شاہ کی تائید کرتے ہوئے کہا قائد حزب اختلاف کی درخواست پر شیخ رشید کو نکتہ اعتراض پر بولنے دیا جائے۔ سپیکر نے شیخ رشید کو نکتہ اعتراض پر 2 منٹ میں بات مکمل کرنے کی اجازت دی تو شیخ رشید نے کہا دو منٹ میں بات نہیں کرسکتا ، سپیکر نے کہا نکتہ اعتراض 2 منٹ سے طویل نہیں ہوسکتا۔ آپ نے لمبی بات کرنی ہے تو بحث میں اپنی باری کا انتظار کریں۔ شیخ رشید پھر واک آئوٹ کرنے لگے تو خورشید شاہ نے انہیں کہا وہ دو منٹ میں بات مکمل کرلیں ۔ شیخ رشید نے نکتہ اعتراض پر کہا پاکستان کو ایک غیر اعلانیہ جنگ کا سامنا ہے، مسالک کے درمیان اتحاد کیلئے علماء کمیٹیاں بنائی جائیں، شیعہ اور سنی ایک دوسرے کے جنازوں میں جانے کیلئے تیار نہیں، سپریم کورٹ نے 21 ویں ترمیم کے خلاف فیصلہ دیدیا تو حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ سٹاف رپورٹر کے مطابق سانحہ شکار پور پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور حکومت کے درمیان شکوہ شکایات کا تبادلہ ہوا۔ خورشید شاہ نے کہا ہمیں امید تھی سانحہ شکارپور پر ایوان میں بحث کے بعد وزیر داخلہ حکومت کی طرف سے وضاحت کریں گے۔ لیکن حکومت نے صرف ایک روایتی قرارداد منظور کرائی جو سندھ کے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ ان کے جواب میں وزیر مملکت شیخ آفتاب نے کہا سانحہ شکارپور پر ان کے دل بھی دکھی ہیں لیکن اپوزیشن شکوہ کرنے کے بجائے انسداد دہشت گردی کے لئے وزیراعظم کے اقدامات کی تعریف کریں۔