’’محترمہ ریحام خان بنام جناب اسحاق ڈار‘‘
شاعر نے کہا تھا ؎
’’انجمن میں ہمنوا کوئی نہیں
جان کھونے کا مزا کوئی نہیں‘‘
لیکن یہ شعر عوامی مسلم لیگ کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپنی لیگ کے واحد ترجمان شیخ رشید احمد پر صادق نہیں آتا۔ اِس لئے کہ شیخ صاحب اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ کسی دَور میں فلمی ہِیروئن ’’انجمن‘‘ فِلم بینوں کے اعصاب پر چھائی ہُوئی تھیں ۔ آج کل شیخ صاحب جناب عمران خان کے چاہنے والوں کی آنکھوں کا تارا بنے ہُوئے ہیں۔
’’شیخ صاحب کا یک تارا‘‘
بڑی سیاسی پارٹیوں موسیقی کی زبان میں ’’Orchestra ‘‘ (سازنوازوں کا بڑا طائفہ) کہا جا سکتا ہے۔ عوامی مسلم لیگ جیسی چند رُکنی پارٹی کو ’’یک تارا‘‘ ’’ہلکی پھُلکی موسیقی‘‘ شیخ رشید احمد کا تکیہ کلام ہے۔ وہ سیاست میں ’’یک تارا‘‘ بجاتے ہیں۔ شیخ صاحب نے شادی نہیں کی ’’جورُونہ جاتا ٗ اللہ میاں سے ناتا‘‘۔ کئی خواتین شیخ صاحب کی ’’نِکّی جیہی ہاں!‘‘ کی آس میں بُوڑھی ہو گئی ہیں لیکن موصُوف قوم کی خدمت میں مَگن ہیں۔ ایک نیوز چینل پر شیخ رشید احمد نے کہا کہ ’’اگر کوئی مسائل زدہ قوم کو تنہا چھوڑ دے تو قوم نیا لِیڈر مُنتخب کر لیتی ہے‘‘۔ شیخ صاحب کو جان لینا چاہئے کہ مسائل زدہ قوم کو لِیڈروں نے پہلے ہی تنہا چھوڑرکھا ہے۔ قوم تو ہر روز یک زبان ہو کر کہتی ہے کہ ؎
’’مَیں ہُوں اے ’’بزمِ لِیڈراں‘‘ تنہا‘‘
جنابِ شیخ! آپ اپنا ’’یک تارا‘‘ بجاتے رہیں اور قوم کو خُوش کرتے رہیں۔ شاید کبھی کوئی آپ کے دائیں ہاتھ پر بھی نگران وزارتِ عُظمیٰ کی لکِیر کھینچ دیں!
’’گوشت سبزی کے مزے اُڑائیں‘‘
کسی زمیندار کا بیٹا سکول سے امتحان کا نتیجہ سُن کر آیا تو اُس نے اپنے والد کو بتایا کہ ’’ابّا جی! پھتّو مصلّی دا پُتّروی فیر فیل ہو گیا جے‘‘ باپ نے پُوچھا ’’پُتر تیرا کِیہ بنیا؟‘‘ تو اُس نے سِینہ تان کر کہا کہ ’’مَیں وی فیل!‘‘۔ اُس کے بعد زمیندار نے اپنے بیٹے سے کیا سلُوک کِیا؟ راوی خاموش ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں دوسرے مُلکوں کی نِسبت اشیائے ضروریہ سستی ہیں پٹرول سستا ہو گیا ہے‘ اب عوام گوشت‘ سبزی کے مزے اُڑائیں۔ سینیٹر پرویز رشید جناب ذوالفقار علی بھٹو کے جیالے رہے ہیں۔ مِیڈیا کے لوگ جب بھی جنابِ بھٹو سے مہنگائی کا گِلہ کرتے تو وہ کہا کرتے تھے کہ ’’جنوبی افریقہ‘ سوڈان اور سری لنکا وغیرہ میں زیادہ مہنگائی ہے۔ وزیرِاعظم بھٹو ایک جلسۂ عام سے خطاب کر رہے تھے کہ ایک نوجوان نے انہیں جُوتا دِکھایا۔ بھٹو صاحب نے جُوتا دِکھانے والے سے کہا کہ۔۔۔۔’’ہاں ! ہاں! مجھے معلوم ہے کہ جُوتے مہنگے ہو گئے ہیں‘‘۔
پاکستان کے دوسرے وزیرِ اعظم خواجہ ناظم اُلدّ ِین سے ایک صحافی نے کہا کہ ’’آٹا مہنگا ہو گیا ہے۔ ایک روپے کا ایک سیر بِکنے لگا ہے‘‘ تو خواجہ صاحب نے کہا کہ ’’لوگ چار روپے کا ایک سیر تمباکُو خرید کر پی سکتے ہیں تو کیا ایک روپے کا ایک سیر آٹا نہیں خرید سکتے‘‘۔ عوام نے خواجہ ناظم اُلدّ ِین کو ’’قائد ِ قِلّت‘‘ کا خطاب دے دِیا۔ ایک سابق صدر اپنی ’’کِچن کیبنٹ‘‘ سے کہہ رہے تھے کہ ’’دوستو! آج میری والدہ کی برسی تھی لیکن مجھے یاد ہی نہیں رہا‘‘۔ کِچن کیبنٹ کے ایک رُکن نے کہا ’’کوئی بات نہیں جنابِ والا! جب بھی کسی شہر یا گائوں میں لوڈشیڈنگ ہوتی ہے لوگ آپ کی والدہ محترمہ کو بہت یاد کرتے ہیں‘‘۔ جناب پرویز رشید نے کہا کہ ’’پٹرول سستا ہو گیا ہے عوام بچت کریں اور گوشت ٗ سبزی کے مزے اُڑائیں‘‘ لیکن اُنہوں نے یہ نُسخہ نہیں بتایا کہ جِن لوگوں کی آمدن 8 ہزار روپے مہینہ ہے وہ پٹرول کے سستا ہونے پر بچت کیسے کریں گے؟ اور جناب پرویز رشید کی ترکیب کے مطابق گوشت‘ سبزی کے مزے کیسے اُڑا سکتے ہیں؟۔ وہ تو گدھے کا گوشت بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ حضرت امِیر ؔ مِینائی کہتے ہیں۔ ؎
’’خاکساری کے مزے خُوب اُٹھے دُنیا میں
خاک ہم چھانتے آئے تھے ٗ یہاں چھان گئے‘‘
’’محترمہ ریحام خان بنام جناب اسحاق ڈار‘‘
وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار بھی وزیرِ اعظم کی اُس ٹِیم میں شامل ہیں جو ہر روز عمران خان کے بارے جُگت بازی کے بعد نیوزچینلوں پر چاروں طرف داد طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ یہ اُن کی ڈیوٹی ہے اور حق بھی۔ جوابِ آں غزل کے طور پر عمران خان اور اُن کے ساتھی بھی وزیرِ اعظم اور اُن کی ٹِیم کی کھِلّی اُڑاتے ہیں ۔ مِرزا اسد اُللہ خان غالب نے کہا تھا۔؎
’’چھیڑ خُوباں سے چلی جائے اسدؔ
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی‘‘
ہمارے یہاں سیاست دان اور سیاسی عُلماء بھی ایک دوسرے کو ’’خُوباں‘‘ قرار دے کر چھیڑ خانی کرتے ہیں اور ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر ’’عداوت کی سیاست‘‘ کر کے نامور ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ 31 جنوری کو جناب اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ ’’بھابھی ریحام خان نے عمران خان کا دھرنا اور سوِ ل نا فرمانی ختم کرادی تھی اور مجھے یقین ہے کہ وہ حکومتی تجاویز کے مطابق عمران خان کو جوڈیشل کمِشن کے معاملے میں بھی راضی کر لیں گی‘‘۔ جناب عمران خان اور اُن کی پارٹی کے کسی رہنما نے محترمہ ریحام خان سے جنابِ ڈار کی اِس خواہش یا اپیل کا نوٹس نہیں لِیا لیکن محترمہ ریحام خان نے ’’از خُود نوٹس‘‘ لیتے ہُوئے کہا کہ ’’مَیں نے عمران خان سے شادی اِس لئے کی وہ آزاد ہیں اور اپنے فیصلے خُود کرتے ہیں۔ وہ دوسروں کے فیصلے پر نہیں چلتے اور نہ ہی پریس کانفرنسوں میں کسی کی بیوی کا نام لیتے ہیں‘‘۔
پہلی بات تو یہ کہ جنابِ اسحاق ڈار جنابِ عمران خان کے سگے ٗ سوتیلے ٗ مُنہ بولے ٗ پگڑی بدل اور ٹوپی بدل بھائی نہیں ہیں پھر محترمہ ریحام خان اُن کی بھابھی کیسے ہو گئیں؟۔ 7 اپریل 2013 ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن جب اپنی اہلیہ محترمہ بُشریٰ اعزاز کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے لئے الیکشن کمِشن لاہور کے دفتر میں گئے تو مِیڈیا سے گفتگو کرتے ہُوئے انہوں نے کہا کہ ’’مَیں اِس لئے اپنی جورُو یعنی بیوی کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے آیا ہُوں کہ مَیں جورُو کا غُلام ہُوں‘‘۔ جناب اعتزاز احسن نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’صدر آصف علی زرداری اور عمران خان بھی اپنی اپنی جورُو کے غُلام رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اورمولانا فضل اُلرحمن بھی جورُو کے غُلام ہیں اور اِنگلستان کا شاعر ٗ ادِیب اور ڈرامہ نگار وِلیم شیکسپیئر بھی جورُو کا غُلام تھا‘‘۔ اعتزاز احسن صاحب کے اِس بیان کا جناب آصف زرداری ٗ جناب عمران خان ٗ میاں نواز شریف اور مولانا فضل اُلرحمن نے کوئی نوٹس نہیں لِیا تھا تو وِلیم شیکسپیئر کیوں لیتے؟۔ چنانچہ اِسے’’الخاموشی نیم رضا‘‘ ہی سمجھا گیا۔
اعتزاز احسن صاحب نے جورُو کے غُلاموں میں جناب اسحاق ڈار کو شامل نہیں کِیا تھا۔ شاید جنابِ ڈار جورُو کے غُلام نہ ہوں لیکن کسی سیانے نے کہا تھا کہ90 فیصد شوہر اپنی اپنی جورُو کے غُلام ہوتے ہیں اور باقی 10 فی صد جھُوٹ بولتے ہیں۔ فرض کِیا (جناب اعتزاز احسن کے بقول) عمرا ن خان اپنی پہلی بیوی جمائما کے غُلام رہے لیکن اِس کا یہ مطلب کہاں نکلتا ہے کہ محترمہ ریحام خان کے بھی غُلام ہوں۔ تبھی محترمہ ریحام خان نے اگلے ہی روز جناب عمران خان کو’’آزاد‘‘ قرار دے دِیا اور جناب اسحاق ڈار کو پریس کانفرنس میں دوسروں کی ’’بیوی‘‘ کا نام لینے والا کہہ دِیا۔ پنجابی زبان کا ایک اَکھان ہے ’’رکّھ پتّ‘ رکھا پتّ‘‘ یعنی ’’دوسروں کی عِزّت کرو اور اُن سے عِزّت کرائو!‘‘۔ جناب اسحاق ڈار سمیت ہر کسی کو ’’جورُو کا غُلام‘‘ فرض کر کے شاعرِ سیاست نے کہا تھا۔ ؎
’’ ہر کوئی ہے غُلام جورُو کا
کتنا اعلیٰ مقام جورُو کا‘‘
لیکن محترمہ ریحام خان کے مطابق جناب عمران خان تو آزاد اور خُود فیصلے کرنے والے سیاستدان ہیں۔اب جناب ِ ڈار کو انہیں منانے کے لئے حضرت داتا گنج بخش کے دربار پر دُعا کے لئے جانا ہوگا۔ یاد رہے کہ 9 جون 2013 ء کو راولپنڈی میں عالمی میلاد کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے جناب اسحاق ڈار صاحب نے کہا تھا کہ ’’مجھے حضرت داتا صاحب نے وفاقی وزیرِخزانہ بنا کر اسلام آباد بھجوایاہے‘‘۔ مجھے اندیشہ ہے کہ جنابِ ڈار کی ’’غیر نصابی سرگرمیوں‘‘ کی وجہ سے کہیں حضرت داتا گنج بخش ڈار صاحب کو لاہور واپس نہ بُلا لیں؟ لیکن انہیں تو تقریبات میں شاعروں کا کلام ترنّم سے سنانے کی پریکٹس بھی نہیں ہے۔