مریم کی تشویش تیسری جمہوریت اور عمرانیات
چلیں ایک تو ہے حکومتی قبیلے میں جو محسوس کرتا ہے اور اظہار تشویش بھی کرتا ہے۔ مریم نواز نے بحرانوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پٹرولیم کا بحران بجلی کا بریک ڈاﺅن، دہشت گردی، کراچی میں قتل و غارت پر حکومتی ساکھ کے متاثر ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے ینگ پارلیمنٹریز کا اجلاس بھی بلایا ہے۔ نسبتاً کم عمر کے لوگوں جوانوں سے تجاویز اور آرا طلب کی گئی ہیں۔ یہ اہم ہے کہ نواز شریف کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ وہ ان سے رجوع کر سکیں اور ان لوگوں کی رسائی ان تک ممکن نہیں ہے۔ اس طرح نئے لوگوں کے خیالات سے بھی کوئی پالیسی بنائی جا سکتی ہے۔ ہم مریم نواز کی باوقار اور بااعتبار شخصیت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس طرح نواز شریف کا ہاتھ بٹا سکیں گی۔ وہ خوشامدی ٹولے کی حرکتوں سے بھی انہیں باخبر رکھیں گی جو حکومتی ساکھ کے لئے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
صدر اوبامہ نے بھارتی دورے میں یہ تاثر دیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں دو جمہوریتیں ہیں جس کے لئے انہوں نے کہا کہ ان دو جمہوریتوں میں ایک باورچی کا بیٹا امریکہ کا صدر اور چائے والا بھارت کا وزیراعظم بن جاتا ہے۔ یہ بات کسی انگریز نے بھی کہی تھی کہ ہندوستان میں دو قوتیں ہیں۔ انگریز اور ہندو۔ تو قائداعظم نے کہا تھا کہ یہاں ایک تیسری قوت بھی ہے اور وہ مسلمان ہیں تو اب یہ جواب صدر اوبامہ کے لئے ہے کہ یہاں پاکستانی جمہوریت بھی ہے۔ اگرچہ اس جمہوریت کے لئے کئی تحفظات ہیں مگر اتنے چیلنجز میں کسی نظام کا قائم رہنا ایک معجزہ ہے۔ یہ ضرب المثل بہت ہے کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے اچھی ہے۔ اس کے لئے بھی کئی تنازعات ہیں اور عمران خان نے تو یہ بھی کہہ دیا ہے کہ جنرل مشرف کی آمریت موجودہ جمہوریت سے بہتر تھی؟ بہرحال سیاستدان کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی اچھی صورت حال پیدا ہو۔ جمہوریت کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچیں اور سلطانی جمہور کا زمانہ آئے۔ لوگ خوشحال ہوں اور قانون کی حکمرانی ہو۔ لوگ حکمرانی کو اپنے گھر کی رانی نہ بنا لیں۔ ایسے زمانے کی امید رکھنا چاہئے۔
بڑے میاں صاحب میاں محمد شریف، بنیادی طور پر ایک مزدور آدمی تھے۔ وہ لوہے کا کام کرتے تھے۔ ان کے صاحبزادے تین دفعہ پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ دوسرے صاحبزادے تین دفعہ وزیراعلیٰ بن گئے۔ صدر اوبامہ اس ضرب المثل کا ترجمہ کرا لیں۔ سو سنار کی ایک لوہار کی۔ برصغیر جنوبی ایشیاءمیں دو جمہوریتیں نہیں ہیں۔ تین جمہوریتیں ہیں۔
صدر اوبامہ جانتے ہیں کہ چائے پلانے والا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے ہی ملک کے ایک شہر گجرات میں لاکھوں بھارتی مسلمانوں کا قاتل ہے۔ وہ اپنے ہموطنوں کا قاتل ہے۔ یعنی وہ ”بہت قاتل“ ہے۔ اسے بھارت میں تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے مگر امریکہ میں اس پر مقدمہ چلایا گیا اور اس کا داخلہ امریکہ میں ممنوع کر دیا گیا۔ ایک ایسے شخص کی عزت افزائی کے لئے ہم امریکہ صدر اوبامہ کو ”مبارکباد“ پیش کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ایک بے خبر بے قصور پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ امریکی جیل میں قید ہے اور اسے امریکی عدالت نے ایک مضحکہ خیز سزا دی ہے جو 84 برس پر مشتمل ہے۔ اتنے برس تک ڈاکٹر عافیہ زندہ بھی نہیں رہے گی۔ امریکی ”نظام نہ اسے زندہ رہنے دے گا نہ مرنے دے گا۔ امریکی عدالتی نظام پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مگر ان کا طرز انصاف اپنے شہریوں امریکیوں کے لئے کچھ اور ہے اور بیرون ملک بالخصوص مسلمان ملکوں کے لوگوں کے لئے کچھ اور ہے۔ ان کے لئے مخصوص جیلیں ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ امریکی یونیورسٹیوں سے پڑھی ہے تو کیا امریکی تعلیمی ادارے دہشت گرد پیدا کرتے ہیں؟ صدر اوبامہ ذاتی طور پر مداخلت کر کے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے اہتمام کریں۔ پاکستانی حکومتیں اس ضمن میں امریکی خوشنودی کے لئے خاموش ہیں اور یہ خاموشی ایک جرم ہے۔
سعودی عرب میں شیخ رشید نے علامہ طاہرالقادری سے ملاقات کی ہے اور بڑے دھڑلے سے کی ہے۔ پہلے بھی عمران اور طاہرالقادری کے درمیان وہ ایک پل کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ پہلا پل خستہ اور کمزور ہو گیا ہے۔ اب دوسرے پل کی تعمیر کا کام جاری ہے۔ کسی سیاستدان نے پرویز رشید سے کہا ہے کہ وہ شیخ رشید نہ بنیں مگر شیخ رشید طالب علمی کے زمانے سے پرویز رشید کا حریف ہے۔ کالج الیکشن میں پرویز رشید شیخ رشید سے شکست کھا گیا تھا۔ اب اس نے بدلہ لے لیا ہے۔ شیخ رشید کی محبوب وزارت اطلاعات حاصل کر کے پرویز رشید نے اپنی دھاک بٹھا دی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے بات کرنے میں محتاط ہیں۔ شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پرویز رشید اور خواجہ آصف جیسے درباری جمہوریت کی بات کرتے ہیں؟ شیریں مزاری کی اپنی حیثیت تحریک انصاف میں کیا ہے؟ عمران خان بظاہر وزیراعظم نہیں ہے۔ مگر تحریک انصاف والے تو اسے وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ میانوالی کے میرے لوگوں نے عمران کو ووٹ نہ دیا تھا، اگلے وزیراعظم کو ووٹ دیا تھا تو پھر جب اس نے اپنی سیٹ عائلہ ملک کے لئے چھوڑ دی اس نے اپنے سمدھی کو دے دی۔ سمدھی حکومت اور اپوزیشن میں ایک جیسی پوزیشن رکھتے ہیں اور ملک صاحب میانوالی میں ہار گئے جبکہ وہاں عمران خان بھی موجود تھے تو لوگوں نے عمران خان کو ووٹ نہیں دیا تھا کہ نواز شریف وزیراعظم بن چکا تھا۔ بہرحال میں ”صدر“ زرداری کے لئے خاص نعرہ شیریں مزاری کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
شیریں مزاری ”کچھ“ پر بھاری
گوشہ نشین جاوید ہاشمی نے کہا تھا کہ ”صدر“ زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لئے پی ایچ ڈی کرنا ضروری ہے۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کی سیاست کو سمجھنے کے لئے ”عمرانیات“ میں ایم فل کرنا ضروری ہے۔
بہت ممتاز ہومیو ڈاکٹر حامد مسعود نے بتایا کہ ایف آئی اے کے ایک ڈپٹی ڈائریکٹر صاحب میرے پاس آئے اور دوائی لینے کے لئے شور شرابہ اور جلدی مچانے لگے۔ انہوں نے اپنی چٹ کاغذ پر لکھ کر میری طرف بھیجی اس میں ڈپٹی کے سپیلنگ غلط تھے۔ تو میں نے سوچا کہ یہ تعیناتی میرٹ پر ہوئی ہو گی؟ کوئی تگڑی سفارش یا بھاری رشوت۔ آج کل رشوت اور سفارش ایک ہو گئی ہے۔ میں نے پوری توجہ سے اس کو دیکھا اور کہہ دیا کہ جناب آپ ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں مگر آپ نے ڈپٹی کے سپیلنگ غلط لکھے ہیں۔ اب آپ فوراً ڈائریکٹر ایف آئی اے بن جائیں۔ جس طرح آپ ڈپٹی ڈائریکٹر بنے ہیں؟