حضرت امیر خسرو اور محبوب الہی کی باہمی محبت
خسرو نظام کے بل بل جاﺅں
خالد بہزاد ہاشمی
طوطی بند حضرت امیر خسرو کی زندگی کے اتنے رخ اور خوبیاں ہیں کہ ہر پہلو پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید لکھا جائے گا یہ بلا شبہ حضرت نظام الدین اولیاءکی صحبت کا فیض ہی تھا کہ حضرت امیر خسرو بادشاہوں سے اعزازات و مناصب و اکرام حاصل کرنے کے باوجود اس دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتے تھے وہ حضرت محبوب الہیٰ کی جلوت و خلوت کے ساتھی تھے وہ کبھی خلوت میں حضرت کے سامنے ایک ادنی خادم کے روپ میں نظر آتے ہیں اور کبھی جلوت میں خوش الحانی کے ساتھ اپنے مرشد کی شان میں غزلیں اور گیت سناتے دکھائی دیتے ہیںوہ اپنے شعری کمالات اور مقبولیات کو حضرت محبوب الہیٰ کی صحبت اور نظر کا فیضان گردانتے اور حضرت محبوب الہیٰ نے اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں ڈالا جس کی یہ برکت رہتی دنیا تک آشکار ہو گئی۔
حضرت محبوب الہیٰ کو بھی حضرت امیر خسرو سے اتنی محبت تھی کہ ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر شریعت میں اجازت ہوتی تو میں یہ وصیت کرتا کہ امیر خسرو کو بھی میری ہی قبر میں دفن کیا جائے جبکہ یہ وصیت بھی فرمائی کہ خسرو کی قبر میرے پہلو میں ہونی چاہئے حضرت نے امیر خسرو سے اپنی بے پایاں انسیت کے باعث یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ میرے وصال کے بعد خسرو میری تربت کے قریب نہ آنے پائیں وگرنہ میرا جسم بے تاب ہو کر قبر سے باہر آجائے گا۔ حضرت نظام الدین اولیاءفرمایا کرتے تھے کہ جب روز حشر سوال ہوگا کہ نظام الدین دنیا سے کیا لایا ہے تو خسروکو پیش کروں گا جبکہ حضرت نظام الدین اولیاءحضرت امیر خسرو کو ترک اللہ کہہ کر پکارتے اور امیر خسرو کی جانب اشارہ کر کے فرمایا کرتے کہ اے باری تعالیٰ اس ترک کے سینے میں جو آگ روشن ہے اس کی بدولت مجھے بخش دے، امیر خسرو پر اپنے پیر و مرشد کی صحبت کا اتنا اثر تھا کہ برسوں صائم الدہر رہے اور عشق الہیٰ کی ایسی سوزش تھی کہ سینے پر سے کپڑا ایسا ہو جاتا تھا کہ گویا جل گیا ہے۔ حضرت امیر خسرو کی اور حضرت نظام الدین اولیاءکی باہمی محبت و عشق، تصوف اور سلوک کی راہ کا وہ درشن استعارہ ہے جس کی مثال بطور ضرب المثل پیش کی جاتی ہے اور تا قیامت پیش کیا جاتا رہے گا۔
جس وقت حضرت محبوب الہیٰ نے وصال فرمایا حضرت امیر خسرو بنگال گئے ہوئے تھے وہ جب دلی پہنچے تو حضرت کے وصال کی جگر خراش خبر سن کر سر کو ٹکرا کر چیخ ماری اور کہا کہ ”سبحان اللہ! آفتاب در زمین اور خسرو زندہ ، یہ کہہ کر بے ہوش ہو گئے، ہوش آنے پر اپنی ساری جائیداد اور مال حضرت محبوب الہیٰ کے ایصال ثواب کے لئے مساکین اور فقیروں میں تقسیم کر دیا اور ماتمی لباس پہن کر حضرت محبوب الہیٰ کے مزار پر انوار آگئے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اب زیادہ عرصہ زندہ نہ رہوں گا اور یہ بات جلد پوری ہو گئی کیونکہ امیر خسرو تو اپنے مرشد کے خیال میں ہی جیتے تھے اور حضرت کے وصال کے غم اور فرقت میں پانچ ماہ بعد ہی دنیا سے رخصت ہو کر اپنے محبوب مرشد سے جا ملے۔وقت کے آخر یہ دوہا پڑھا کرتے تھے
گوری سوئے سیج پہ مکھ پر ڈارو کیس
چل خسرو گھر اپنے شام بھئی چودیس