نظام الدین اولیائ
خالد بہزاد ہاشمی
حضرت سلطان المشائخ، محبوب الٰہی سلطان جی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءکے سات سو گیارہویں پانچ روزہ سالانہ عرس مبارک کی تقریبات دہلی میں درگاہ حضرت نظام الدین اولیاءپر بصد تزک و اختتام شروع ہو چکی ہیں۔ جس میں دنیا بھر سے زائرین شرکت کر رہے ہیں اور شہر میں میلے کا سماں ہے دہلی سے سجادہ نشین درگاہ حضرت نظام الدین اولیاءدیوان برادرم سید طاہر نظامی صاحب نے بھی فون پر عرس مبارک کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءسلسلہ چشتیہ کے چوتھے ماہ تاباں ہیں جو دلی کو اپنی روحانی کرنوں سے روشن و منور کر رہے ہیں انہیں پاکپتن شریف کے درویش اور ان کے مرشد شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر نے خلافت عطا فرمائی تھی جب کہ حضرت بابا جی کو ان کے مرشد اور دہلی میں آسودہ خواب حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے خلافت مرحمت فرمائی جب کہ حضرت خواجہ قطب صاحب کو حضرت خواجہ غریب نواز، سلطان الہند، بزرگ خواجہ، خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے خلافت کا تاج عطا فرمایا تھا۔ حضرت محبوب الٰہی بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور نانا سید علی اور سید عرب دونوں بھائی بخارا میں مقیم تھے اور مغلوں کے حملے میں ہجرت کر کے لاہور آگئے اور یہیں حضرت خواجہ سید علی کے ہاں صاجزادے سید احمد اور حضرت خواجہ سید عرب کے ہاں صاجزادی زلیخا پیدا ہوئیں بعد ازاں سایہ خاندان بدایوں آباد ہو گیا اور وہیں سید احمد اور بی بی زلیخا کی شادی ہوئی جن سے سید محمد پیدا ہوئے جو سلطان المشائخ، محبوب الٰہی، سلطان جی اور حضرت نظام الدین اولیاءکے نام سے مشہور ہیں آپ پانچ برس کی عمر میں یتیم ہوئے، والدہ نے جس طرح سے آپ کی تعلیم و تربیت کی وہ آج کی ماﺅں کے لئے روشن مثال ہے۔ دہلی میں حضرت شیخ العالم بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے بھائی حضرت شیخ نجیب الدین متوکل رہتے تھے آپ کی والدہ نے آپ کو ان کے پاس بھیجا جنہوں نے انہیں اپنے بھائی شیخ العالم حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے پاس اجودھن و پاکپتن شریف بھیجا یہ حضرت بابا جی کے روحانی کمالات میں سب سے بڑا کمال حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیاءہیں جنہوں نے ہندوستان کو نور ولایت سے منور فرما کر رشد و ہدایت کا ذریعہ بنایا اور تاج کرامت آپ کے سر پرانوار پر رکھا۔ یہ حضرت بابا جی کی دعا کا فیض تھا کہ انہوں نے حق تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی کہ تو جو خدا سے چاہے گا وہ ہی پائے گا حضرت بابا جی نے حضرت نظام الدین اولیاءکو ان کے لنگر خانے میں روزانہ ستر من نمک استعمال ہونے کی بھی دعا دی تھی ان دنوں ایک من چالیس سیر کی بجائے بارہ تیرہ سیر کے برابر ہوتا تھا اور پھر ایک عالم نے دیکھا کہ حضرت بابا جی کی یہ دعا کیسے پوری ہوئی۔ حضرت محبوب الٰہی کو شب عبادت میں حق تعالیٰ نے یہ دکھا دیا تھا کہ نظام جس مومن نے تیری زیارت کی یا کرے گا۔ ہم اسے بخش دیں گے تیرہویں صدی کے آخر اور چودھوی صدی کے اوائل کی دہلی میں آپ سب سے منفرد کردار کے حامل ہیں آپ کو سلسلہ چشتیہ کے عدم تشدد کے تصور کو ثقافتی مذہبی رواداری اور امن پسندی کی شکل دینے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے دور میں درجن بھر بادشاہ آئے لیکن دلی کے اس روحانی سلطان اور امن کار نے شہنشاہوں اور بادشاہوں کی توسیع پسندانہ پالیسی کا ساتھ دینے سے مکمل انکار کیا اور کبھی کسی بادشاہ کے دربار میں (ماسوائے سماع پر مناظرہ کے) کبھی حاضر نہ ہوئے سو اسی باعث بیشتر ان کی روحانی طاقت سے خوفزدہ اور لرزہ بر اندام رہے حضرت کے خاص مریدین حضرت امیر خسرو، حضرت امیر حسن سنجری اور ضیاءالدین برنی جیسے نامور مورخین نے بادشاہوں کے اس طرز عمل کی اپنے مخصوص انداز میں ان ڈائریکٹ مذمت بھی کی۔