• news

تمام دلائل درست مان بھی لیں تو پولیس اہلکار کے حلف کا کیا کریں: اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی نے سلمان تاثیر قتل کیس میںریمارکس دیئے ہیں کہ سیشن جج بھی کسی ملزم کے لئے سزائے موت کا پروانہ جاری کر سکتا ہے مگر اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا ، قانون اپنے ہاتھ میں لینے والا قانون کی گرفت میں آتا ہے۔جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سلمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل کی سماعت کی۔ ممتاز قادری کی جانب سے جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ غیر معمولی حالات میں کوئی شخص از خود کارروائی کرکے کسی کو مار سکتا ہے۔ جسٹس نورالحق قریشی نے کہا کہ یہ اختیار تو کسی جج کو بھی نہیں ، وہ جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا تو سنا سکتا ہے مگر ملزم کا ہاتھ تک نہیں لگا سکتا کیونکہ قانون ہاتھ میں لینے والا قانون ہی کی گرفت میں آتا ہے۔ میاں نذیر اختر نے کہا کہ ہولو کاسٹ کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا سکتا لیکن آزادی اظہار رائے کے نام پر مسلمانوں کی دل آزادی کی جاتی ہے۔جسٹس نورالحق قریشی نے کہا کہ وہاں تو یہ قانون بھی بنایا گیا ہے کہ ہولو کاسٹ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کر سکتا ۔ نذیر اختر نے کہا کہ ممتاز قادری سچا اور دیانتدار انسان ہے، شہادتیں اور ثبوت ممتاز قادری کو مجرم ثابت نہیں کرتے ، اس کا ڈیوٹی ریکارڈ بہت اچھا ہے ۔اس نے ایلیٹ فورس کے کمانڈو کی حیثیت سے بہت سے وی آئی پیز کے ساتھ ڈیوٹی کی ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ آپ کی یہ تمام باتیں درست مان لیں پھر بھی اس حلف کا کیا کریں جو ایک پولیس اہلکار سے لیا جاتا ہے۔ ملک میں توہین رسالت کا قانون موجود ہے جس کے تحت سزا ہونی چاہئے، کسی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ممتاز قادری کے وکیل جسٹس ریٹائرڈ میاں نذیر اختر سے سوال کیا کہ اب آپ ہی بتائیں کہ ہمیں جذبات اور احساسات کو مد نظر رکھ کر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے یا قانون کو سامنے رکھ کر؟میاں نذیر اختر کے دلائل جاری تھے کہ سماعت 10 فروری تک ملتوی کر دی ۔

ای پیپر-دی نیشن