رضوان قریشی جلائی گئی فیکٹری کو ورکرز فراہم کرتا رہا
کراچی (نوائے وقت رپورٹ) کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاﺅن میں اڑھائی برس قبل 20 کروڑ روپے بھتہ نہ ملنے پر گارمنٹس کی فیکٹری کو کیمیکل چھڑک کر آگ لگانے اور 290 ورکرز کو زندہ جلانے کا ملزم اور کراچی میونسپل کارپوریشن کا سینٹری انسپکٹر رضوان قریشی ضمانت کے بعد ایک سال قبل پراسرار طور پر غائب ہوگیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق بتایا گیا ہے کہ پولیس اور سکیورٹی اداروں کی لاپرواہی اور ایک سابق وزیراعظم کی مدد کے باعث رضوان قریشی کی ضمانت ہوگئی۔ مقدمے سے فیکٹری مالکان کے نام بھی تفتیشی افسر نے نکال دئیے تھے۔ ملزم رضوان قریشی تب سے یعنی گذشتہ برس سے منظرعام سے غائب ہے۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق رضوان قریشی یا تو خود روپوش ہوسکتا ہے یا ہو سکتا ہے اسے کسی ادارے نے حراست میں لے رکھا ہو یا پھر اسے دوسرے گروہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ دوسری طرف ایک نجی ٹی وی کا کہنا ہے کہ سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کی جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیکٹری میں لیبر کی فراہمی کا ٹھیکہ رضوان قریشی کے پاس تھا۔ اسی نے وہاں 100 سے زائد ورکر فراہم کئے۔ علاوہ ازیں آگ لگنے پر جب فائربریگیڈ کا عملہ وہاں پہنچا تو فیکٹری کے گیٹ پر باہر سے تالہ لگا تھا، عملہ یہ تالا توڑ کر اندر داخل ہوا۔ پورٹ کے مطابق رضوان قریشی نے رینجرز دیگر اداروں کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو بتایا کہ ایک سابق صوبائی وزیر نے فیکٹری مالکان کو بلیک میل کرنے کیلئے انکا نام ایف آئی آر میں ڈلوایا۔ فیکٹری مالکان نے ضمانت کرائی تو ضمانت منسوخ کرادی گئی۔