گرفتاری کا خوف، اداروں کا دباو، ہزاروں افغان خاندان پاکستان چھوڑنے پر مجبور
کابل+ پشاور (رائٹر + آئی این پی+ بی بی سی) سانحہ پشاور کے بعد ہزاروں افغان خاندان خوفزدہ ہو کر پاکستان سے واپس افغانستان جانے پر مجبور ہیں۔ افغانستان میں بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرین (آئی او ایم) کی رپورٹ کے مطابق دسمبر میں پشاور کے سکول پر حملے کے بعد افغان خاندان شناختی کاغذات اور سفری دستاویزات نہ ہونے پر گرفتار کر کے طورخم بارڈر کے ذریعے افغانستان بھجوائے جا رہے ہیں۔ تنظیم کی رپورٹ کے مطابق جنوری میں سفری دستاویزات درست نہ ہونے پر 22 ہزار سے زائد افغان باشندوں کو واپس بھجوایا گیا ہے۔ اسی طرح پندرہ سو سے زائد افغان باشندوں کو دسمبر میں واپس بھیجا گیا۔ افغانستان اور پاکستان فورسز کے مابین تعاون کی بہتری کے بعد ایسے مشکوک افراد کیخلاف آپریشن کر کے حراست میں لیا جا رہا ہے جن کا تعلق پاکستانی طالبان سے ہے۔ انٹر نیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کی رپورٹ و دیگر حکام کے مطابق پاکستان میں مقیم افغان خاندان گھروں میں پولیس کے چھاپوں اور حراساں کئے جانے کے باعث خوف میں مبتلا ہیں۔ بیشتر افغان خاندان کئی عشروں سے پاکستان میں مقیم ہیں واپسی کیلئے تیار نہیں۔ مزید برآں آئی این پی کے مطابق طورخم کے راستے افغان باشندوں کی پاکستان آمد و رفت محدود ہوگئی۔ رپورٹ میں حکام کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ خیبر پی کے اور پنجاب میں روزانہ 150 سے 180 افغان باشندوں کو درست سفری دستاویزات نہ ہونے پر گرفتار کر کے طورخم کے راستے افغانستان واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی طرح تقریباً سو خاندان رضاکارانہ طور پر وطن واپس جا رہے ہیں۔ مختلف وجوہات کی بنا پر پاکستان داخل ہونے والے تمام افغان باشندوں کی سفری دستاویزات کا بغور جائزہ لیتے ہیں۔ ویزہ نہ رکھنے والے ایسے لوگوں کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جاتی۔ مزید برآں بی بی سی سی کے مطابق ملا داداللہ کی تنظیم دادا اللہ محاذ کے ایک ترجمان شہاب الدین اتل نے افغانستان سے ٹیلی فون پر بی بی سی کو بتایا کہ منصور داداللہ گذشتہ ماہ اپنے خاندان سمیت پاکستان سے نکل گئے تھے۔ منصور داد اللہ نے بی بی سی سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ ’پاکستانی اداروں نے ان پر اپنی بات ماننے کے لیے دباو¿ ڈالا لیکن انہوں نے اپنے خاندان سمیت پاکستان چھوڑنا پسند کیا۔‘ منصور داد اللہ نے کہا کہ ’مجھے پاکستانی اداروں نے کہا تھا کہ وہ ان کی بات مانیں تاہم میں نے ان سے کہا کہ مجھے کہنے کی بجائے طالبان قیادت سے رابطہ کریں، اور یہ کہ میں اپنے کمانڈروں اور مجاہدین کے مشورے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔‘ منصور داد اللہ تقریباً پانچ سال تک پاکستانی سکیورٹی فورسز کی حراست میں رہے اور گذشتہ سال انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔