• news

حکمران فہم و تدبر سے کام لیں اور آئین وقانون کی حکمرانی پر کوئی سوال نہ اُٹھنے دیں

پاک فوج کے ترجمان کا 12 مقدمات فوجی عدالتوں کے سپرد کرنے کا اعلان 

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق ملک میں فوجی عدالتوں کے تحت قانونی عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس سلسلہ میں آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ آئینی ترمیم کے بعد حال ہی میں قائم کی گئی فوجی عدالتوں کو وزارت داخلہ کی جانب سے 12 مقدمات موصول ہو گئے ہیں جن کی جلد سماعت ہو گی۔ میجرجنرل عاصم سلیم باجوہ کے نام سے جاری ہونے والی اس پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ صوبائی ایپکس کمیٹیوں نے مقدمات وزارت داخلہ کو بھجوائے جہاں چھان بین کے بعد انہیں فوج کو بھجوایا گیا ہے۔ ان کے بیان کے مطابق پہلے مرحلے میں 12 مقدمات فوجی عدالتوں کو سونپے گئے ہیں۔ نیوز ایجنسی ”آن لائن“ کے مطابق مزید مقدمات فوجی عدالتوں کو بھجوائیں جانے کا امکان ہے۔ ابتدائی طور پر پنجاب اور خیبر پی کے میں تین تین، سندھ میں دو اور بلوچستان میں ایک فوجی عدالت قائم کی گئی ہے ان عدالتوں کو بھجوائے گئے مقدمات خطرناک دہشت گردوں کے خلاف ہیں، یہ فوجی عدالتیں آئین میں 21ویں ترمیم کے ذریعے آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے دو سال کے لئے تشکیل دی گئی ہیں جن میں عسکری ذرائع کے بقول شدت پسند دہشت گردوں کے خلاف درج وہ مقدمات ہی بھجوائے جائیں گے جن کی بوجوہ عام عدالتوں میں سماعت نہیں ہو سکتی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ عدالتیں لیفٹینٹ کرنل رینک کے افسر کی سربراہی میں قائم کی گئی ہیں جن کے ساتھ میجر رینک کے دو افسر شریک ہوں گے اور ان میں سے ایک کا تعلق فوج کی جیک برانچ سے ہو گا۔ ان عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف کسی عدالت میں اپیل کا اختیار نہیں دیا گیا۔
اگرچہ فوجی عدالتوں کی تشکیل پر حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کی اکثریت کی جانب سے سخت تحفظات کا اظہار سامنے آنے پر وزیراعظم کی طلب کردہ آل پارٹیز پارلیمانی کانفرنس میں فوجی عدالت کو خصوصی عدالت کا نام دینے پر اتفاق کیا گیا تھا جس کی سربراہی فوجی افسر کو دینے پر بھی اتفاق ہوا تاہم اس عدالت کا ایک رکن سول عدلیہ میں سے لینے کا طے ہوا مگر آئی ایس پی آر کی جاری کردہ پریس ریلیز میں عدالتوں کی تشکیل کی جو ہئیت ترکیبی بیان کی گئی ہے اس کے مطابق یہ خالصتاً فوجی عدالتیں ہیں جنہیں فوجی عدالت ہی کا نام دیا گیا ہے اور اس کے تمام ارکان بھی فوجی افسران پر ہی مشتمل ہیں۔ ان عدالتوں کی تشکیل کے حوالے سے یہ تبدیلی کسی غلط فہمی کی بنیاد پر سہواً ہوئی ہے یا کچھ اور معاملہ ہے اس کی وضاحت تو پاک فوج کے ترجمان یا وفاقی وزارت داخلہ و قانون ہی کر سکتی ہے مگر آل پارٹیز کانفرنسوں کے طے کئے گئے قومی سلامتی کے ایجنڈہ میں قوم کو جس حتمی فیصلے سے آگاہ کیا گیا وہ فوجی عدالتوں کے بجائے خصوصی عدالتوں کی تشکیل سے متعلق ہی تھا جن میں سول عدلیہ میں سے بھی ایک ایک نمائندے کو شامل کیا جانا تھا۔
آرمی پبلک سکول پشاور کے 16 دسمبر 2014ءکے سانحہ کے بعد بے شک پوری قوم دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے یکجہت اور یکسو ہوئی جس کے لئے ملک کی تمام دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین نے حکومت کو کوئی بھی قدم اٹھانے کا مینڈیٹ دیا۔ اسی تناظر میں وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے فوجی عدالتوں کی تشکیل کا عندیہ دیا گیا تاہم اس پر بالخصوص سابق مارشل لاءادوار میں فوجی عدالتوں کو بھگتنے والی سیاسی جماعتوں نے سخت تحفظات کا اظہار کیا جنہیں بعد ازاں فوجی عدالتوں کا نام خصوصی عدالتوں میں تبدیل کر کے قومی اتفاق رائے کے دھارے میں لایا گیا۔ پھر بھی پیپلز پارٹی کے قائد سابق صدر مملکت آصف علی زرداری اور اس پارٹی کے دوسرے عہدے داروں نے واضح طور پر باور کرایا کہ ان عدالتوں کے قانون کو سیاسی مقدمات میں بروئے کار نہیں لانے دیا جائے گا۔ اگرچہ اسلام آباد میں منعقدہ تیسری آل پارٹیز پارلیمانی کانفرنس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بریفنگ دیتے ہوئے باور کرایا تھا کہ فوجی عدالتوں کی تشکیل فوج کی نہیں، قوم کی ضرورت ہے تاہم اب جس انداز میں براہ راست فوج نے ان عدالتوں کی کمان سنبھالی ہے جو بادی النظر میں قومی سیاسی دینی قائدین کی کانفرنسوں میں کئے گئے متفقہ فیصلوں کے بھی منافی نظر آتی ہے، اس سے یہی تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ عسکری قیادتوں کے دباﺅ پر ہی سیاسی دینی قیادتوں کو خصوصی عدالتوں کے لبادے میں فوجی عدالتوں کی تشکیل پر متفق کیا گیا تھا جبکہ اب یہ لبادہ بھی اتار دیا گیا ہے۔
بے شک آل پارٹیز کانفرنسوں میں خصوصی عدالتوں کی تشکیل پر اتفاق ہوا جس کے لئے 21ویں آئینی ترمیم کا بل بھی متفقہ طور پر تیار کر کے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں متفقہ طور پر منظور کرایا گیا اس کے باوجود دینی سیاسی قائدین اور بعض دینی حلقوں بشمول وفاق المدارس کی جانب سے فوجی عدالتوں کے قانون کی اس شق پر سخت اعتراض کیا گیا جس کے تحت مذہبی انتشار پسندی کے حوالے سے ہونے والی دہشت گردی کے مقدمات ہی ان عدالتوں کے دائرہ¿ اختیار میں شامل کئے گئے ہیں۔
اس سلسلہ میں مولانا فضل الرحمان، سراج الحق اور دوسرے دینی عمائدین کا یہ مو¿قف قرین قیاس ہے کہ دہشت گردی میں کوئی تخصیص نہیں ہونی چاہئے اور جو بھی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے یا دہشت گردوں کی معاونت و سرپرستی کر رہا ہے ان سب پر فوجی عدالتوں کے قانون کا یکساں اطلاق کیا جائے، تاہم وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ اور دوسرے حکومتی ذمہ داروں کی جانب سے بار بار یہ یقین دلانے کے باوجود کہ فوجی عدالتوں کے قانون پر تمام تحفظات دور کئے جائیں گے، یہ قانون اب لاگو ہو چکا ہے جس پر عملدرامد بھی اس کی اصل روح کے برعکس کیا جا رہا ہے تو اس پر متذکرہ قانون پر تحفظات رکھنے والے حلقوں کا مضطرب ہونا فطری امر ہو گا۔ اس کے علاوہ قانون دانوں کی جانب سے فوجی عدالتوں کی تشکیل کو سرے سے قبول ہی نہیں کیا جا رہا جو انہیں متوازی عدالتی نظام قرار دے کر آئین کی روح سے متصادم سمجھتے ہیں اور اسی تناظر میں ملک بھر کے وکلاءپاکستان بار کونسل اور تمام ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنوں کی قیادتوں کے مشترکہ فیصلہ کے تحت ہر جمعرات کو ملک بھر میں یوم سیاہ بھی منا رہے ہیں اور انہوں نے فوجی عدالتوں کی تشکیل سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کر رکھی ہے۔ اب جبکہ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں ان عدالتوں کو خالصتاً فوجی عدالتوں کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے تو قانون دانوں کے حلقوں میں مزید اضطراب پیدا ہو گا اور ان کا جاری احتجاج کسی منظم تحریک کے قالب میں بھی ڈھل سکتا ہے، اس لئے خدشہ ہے کہ فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کی تشکیل کا جو قانون 21ویں آئینی ترمیم کے تحت ملک میں دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے کے مقصد کے تحت وضع کیا گیا ہے وہ متنازعہ ہو کر کہیں دہشت گردی کی جنگ کو ہی کمزور نہ کر دے۔
جب یہ معاملہ پہلے ہی سپریم کورٹ میں جا چکا ہے اور چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا بنچ وفاق اور صوبوں کو 12 فروری کے لئے نوٹس بھی جاری کر چکا ہے تو دانشمندی اور قانونی اخلاقیات کا یہی تقاضہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے قانون پر عدالت عظمیٰ کے حتمی فیصلہ تک عملدرآمد سے گریز کر لیا جائے۔ اگر اب فوجی عدالتوں کے کام کا آغاز کیا جاتا ہے جس میں سول اتھارٹی اور عدلیہ کا کوئی عمل دخل بھی نظر نہیں آ رہا تو اس سے وکلاءبرادری کی جانب سے مزید سخت ردعمل سامنے آ سکتا ہے جو فوجی عدالتوں کے خلاف زیر سماعت مقدمات کی کارروائی کو بھی متاثر کر سکتی ہے جبکہ اس سے اس تاثر کو مزید تقویت حاصل ہو گی کہ انتظامی اور عدالتی معاملات میں فیصلے کرنے کا اختیار بھی سول حکومت کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ یہ صورتحال ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے کسی صورت مستحسن قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لئے کسی تعمیری، مثبت اور ملک کی سلامتی سے متعلق مقصد کے حصول کے لئے سول اتھارٹی اور قیادتوں کے کئے گئے فیصلہ کو متنازعہ بنانے سے بہر صورت گریز کیا جانا چاہئے۔ بہتر ہے کہ مجاز سول اتھارٹی خود ہی اس معاملہ کی وضاحت کر دے ورنہ کل کو قانون و آئین کی حکمرانی کے حوالے سے پیدا ہونے والے اضطراب سے عہدہ برا ہونا حکومت کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ حکمران اب ہی فہم و تدبر سے اس الجھاﺅ کو دور کر لیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا۔

ای پیپر-دی نیشن