حمام
یہ کیسے ہو سکتاہے کہ بلدیہ ٹاون کراچی میں لگی آگ اور اس میں 280 افراد کی ہلاکت سے متعلق عدالت میں پیش کردہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جزوی انکشافات سے بھرپور رپورٹ کے بارے میں کچھ نہ لکھا جائے۔مگر یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ اس حوالے سے سب کچھ ہی لکھ دیا جائے۔اسلام آبادمیں بیٹھ کے کسی بھی صحافی کے لیے مکمل حقائق جاننا مشکل سہی مگر کراچی میں رہ کر مکمل حقائق جانتے ہوئے بھی سب کچھ لکھ دینا بھی نا ممکن ہے۔ہم میڈیا والوںکی حالت بھی شاید اس فیکٹری میں جل کر دم گھٹنے والوں سے مختلف نہیں جن کے لیے شاید چلا کر مدد کو پکارنے اورجان بچانے کے لیے باہر جانے کے راستے بھی بند ہوتے جا رہے ہیں۔سیاست اور مصلحت کی آگ نے ہم چلتی پھرتی لاشوں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے اور میڈیا بھی ان لاشوں پر دھویں کی چادر تانے ہوئے ہے ۔حکمران جماعت مسلم لیگ ن عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ اور صوبائی حکومت کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی ”محتاط“ رپورٹنگ کو بھی میڈیا ٹرائل کا نام دیتی ہے۔دوسری طرف سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی ایم کیو ایم پر لگے الزامات کی سنگینی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے حکومت میں شامل ہونے کی دعوت دے رہی ہے۔خود ایم کیو ایم بھی ایسے سنگین الزامات کے داغ دھلنے سے پہلے سندھ حکومت میں شمولیت پر سنجیدگی سے غور کر رہی ہے۔میڈیا کا حال ایسا ہے کہ سب سے بڑا میڈیا گروپ ہونے کا دعویٰ دار ایک ٹی وی چینل ایم کیو ایم کے قائد کی تقریر ٹی وی اینکروں کو ”اپنے انجام“ سے با خبر رہنے کے دھمکی آمیز بیانات کو بھی باقاعدگی سے نشر کرتا ہے۔ایک تقریر میں تو مخالف سیاسی جماعت کی خاتون ترجمان سے متعلق نازیباہ الفاظ کو بھی اس ٹی وی چینل پر خبروں میں بھی نشر کیا گیا۔ہمارے ملک اور ہمارے معاشرے کو جھوٹ ،بھتہ خوری ،بے انصافی ،ٹارگٹ کلنگ اور سیاسی مصلحت اور شعلوں کی نظر کیا جا چکا ہے۔ظالم حکمران اور سیاسی جماعتیں ہماری اقدار کو زندہ جلا رہی ہیں،ظالم مار رہے ہیں اور رونے بھی نہیں دیتے۔عوام اور میڈیا کے جان بچانے کے تمام ہنگامی راستوں کی بھی تالہ بندی کی جا رہی ہے۔المیہ یہ ہے کہ نامکمل تفتیش اور کمزور شہادتوں کے ساتھ جزوی انکشافات کے ذریعے ملزمان کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور پھر وہی ہو گا جو ہوتا آیا ہے۔یعنی مقدمہ خارج اور الزام عدالتوں اور ججوں پربلدیہ ٹاون سانحہ کی رپورٹ بھی ایک ایسی کاوش لگتی ہے جس میں ملزم کو سزا دلوانے کی بجائے اسے زیر اثر لانا مقصود ہو۔بلدیہ ٹاون کی اس فیکٹری میں جل کر مرنے والوں کی رگوں میں شاید وہ خون نہیں دوڑتا تھا کہ جس کا بدلہ وزیرستان کی پہاڑیوں پر بمباری کے ذریعے چکایا جاتا،پھانسی کی سزاوں پر عمل درآمد ہوتا اور یہی پارلیمنٹ آئینی ترمیم کے ذریعے اس سانحے کے بعد ہی فوجی عدالتیں بنا ڈالتی۔مگر یہ سب کچھ اس وقت نہیں ہوا۔ایسے حالات میں ہم میڈیا والون کا بھی یہ اعتراض کیا معنی رکھتا ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی کی سزا کی اپیل میں حکومت کی طرف سے کوئی وکیل آسانی سے دستیاب نہیں ہوتا۔کراچی میں ہونے والے واقعات پر ہم صحافی کتنے فیصد حقائق بیان کر دیتے ہیں اور پھر کالم نویس رائے دیتے ہوئے بھی الفاظ کے چناو پر کتنا غور کرتے ہیں اس کا اندازہ لگانا ایک عام قاری کے لیے بھی کچھ زیادہ مشکل نہیں ،اور پھر عدالتوں پر بھی یہ الزام کیا معنی رکھتا ہے کہ جج حضرات ڈر کے مارے ملزمان کو چھوڑ دیتے ہیں۔یہ تلخ حقیقت ہی سہی مگر کیا اب فوجی عدالتوں کے باوردی جج صاحبان اور وکلا اپنے نام میڈیا کو جاری کر پائیں گے ؟ اگر نہیں تو پھر کھلی عدالتوں میں سماعت کرنے اور وکالت کرنے والے ججوں اور وکیلوں پر کمزور دلی کا الزام کیسا،غیر مسلح اور غیر تربیت یافتہ صحافیوں پر کراچی سے جزوی حقائق رپورٹ کرنےے کا گلہ کیوں ؟یہاں تو حکومتوں میں بھی اتنی ہمت نہیں کہ ایبٹ آباد میں امریکی حملے جیسے اہم واقعات پر عدالتی کمیشن کی تیار رپورٹ کو ایوان کے سامنے لائیں۔ایسی ہی صوبائی یا وفاقی حکومتوں سے پشاور حملے جیسے سانحے میں غفلت کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل ہی نہ کرنے کا گلہ کیسا؟اور پھر جب ملک کی اعلی ترین عدالت کے تین ججوں پر مشتمل ایک عدالتی کمیشن کے تین معزز جج صاحبان سنئیر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے بارے میں بطور کمیشن اپنی رپورٹ ہی مکمل نہ کریں تو پھر انسداد دہشت گردی کے ججوں سے کمزور دلی کا شکوہ کیسا؟
بطور قوم اور حکمران ہم سب اپنا اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ کوئی نوکری پیشہ پنشن کے انتظار میں سرکاری قوائد کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر اپنے افسر کو خوش کرنے میں لگا ہے۔ کوئی نجی ادارے کا ملازم اپنی نوکری بچانے ادارے کے منافع کیلئے عام لوگوں کو بیوقوف بنانے سے باز نہیں آتا۔ کوئی فیکٹری کا مالک اپنے کاروبار اور اپنی جان کے تحفظ کے لیے باقاعدگی سے بھتہ ادا کرتا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے اقتدار اور انتخابی حکمت عملی کے لیے ملزم جماعتوں کو بار بار گلے لگاتی ہے۔ کوئی صحافی اپنی زندگی ،نوکری یا بہتر مالی تحفظ کی خاطر جھوٹ بولنے یا سچ نہ بولنے کو غنیمت سمجھتاہے۔ اخبارات و ٹی وی چینل ملک کے کمرشل دارلخلافے کے حالات کو مکمل رپورٹ کر کے اپنے کمرشل وجود کی نفی نہیں کر سکتے۔ ایسے حالات میں پاکستان کے کروڑوں عوام کا یہ حق ہے کہ وہ یہ جان لیں کہ کراچی کے واقعات سے متعلق ہمارے ادارے ،سیاسی جماعتیں ، عدالتیں اور میڈیا یا کوئی بھی اہم گواہ مکمل سچ نہیں بول سکتا۔ اس لیے وہ اپنی زندگی کے فیصلے محض میڈیا اور سیاستدانوں کے بیانات سے نہ کریں۔ اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ ہم سب بلدیہ ٹاﺅن کی فیکٹری کے وہ مزدور ہیں جو خود کو آگ لگا کر اپنے راستے خود ہی بند کر رہے ہیں۔دوسری طرف ویسے بھی راستہ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ اس ملک میں صرف اور صرف مسلح لوگ ہی کرتے ہیںچاہے وہ ریاستی ہوں یا غیر ریاستی ۔ جہاں تک تازہ ترین انکشافات کا تعلق ہے تو ان کو بھی باسی ترین انکشافات بننے۔ میں زیادہ دیر نہیں لگے گی جیسا کہ آج تک ہوتا آیا ہے۔ بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری میں آگ سے جھلس کر مرنے والوں‘ شکار پور کے مظلوموں اور پشاور کے شہید بچوںکے لواحقین سے مودبانہ گزارش ہے کہ وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ۔ اس مکافات عمل میں یہ حکمران اور ادارے خود بخود جوابدے ہوں گے جیسا کہ پہلے ہوتے رہے۔ بس ان حکمرانوں میں سے کسی کے مرنے پر رونا نہیں۔ یہ سوچ کر کہ جب وہ زندہ تھاتو اس نے عام لوگوں کے مرنے اور قتل ہونے پر کتنے مجرموں کو کٹہرے میں لا کر سزا دلائی تھی۔ یہ حکمران وہ لوگ ہیں کہ اپنے ماں ،باپ اور بیوی تک کے اصل قاتلوں کو ڈھونڈ کر سز ا نہ دلوا سکے اور مقتولوں کو اپنے اقتدار کی منوں مٹی تلے دبا دیا یہ آپکو کیا انصاف دلائیں گے۔ یہ سب ایک خاص صورتحال میں ایک دوسر ے کے دشمن اور اگلے ہی لمحے دوست بن جاتے ہیں۔ اسی لیے تو بلدیہ ٹاﺅن کے سانحہ پر حکمران جماعت کے وزیر اطلاعات کا مشورہ ہے کہ کسی جماعت کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے۔ جی ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ ماڈل ٹاﺅن میں شہریوں کے قتل ،شکار پور میں دہشت گردی اور بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری میں 280 افراد کے جل کر مر جانے پر مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیوایم کا میڈیا ٹرائل نہ کیا جائے۔ حکمران جماعت کو شاید یہ اندازہ نہیں کہ جس ملک میں دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے مسلح فوجیو ں کی عدالتیں لگتی ہوں اور کو ئی سیاست دان کرپشن کے ٹرائل میں کبھی جیل ہی نہ بھیجا جا سکتا ہو تو اس ملک میں اگر میڈیا بھی ٹرائل نہیں کرےگاتو پھر کیا عوام سڑکوں پر عدالتیں لگا کر یہ کام کریں گے ؟