پھر مفاداتی سیاست
پیپلزپارٹی کے رہنما رحمن ملک نے کہا ہے کہ ایم کیو ایم کے پی پی پی کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔ ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شمولیت پر اصولی طورپر رضامند ہو گئی ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آصف زرداری اور الطاف حسین نے بات چیت میں ماضی کی تلخیاں بھلا دیں۔ سینٹ میں ایم کیو ایم پی پی کی اتحادی ہوگی۔پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے ماضی کی تلخیاں اور بے وفائیاں بھلا کر مستقبل میں مل کر چلنے کے لئے ایک مرتبہ پھر عہدوپیماں کر لئے ہیں۔ ایم کیو ایم نے سینٹ الیکشن کیلئے فنکشنل لیگ سے 3 مرتبہ ملاقاتیں کیں تو پیپلزپارٹی کو سینٹ کی ایک نشست سے محروم ہونے کا خدشہ لاحق ہو گیا۔ آصف علی زرداری نے فوراً ایم کیو ایم متحدہ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اسے نہ صرف جماعت میں شمولیت کی دعوت دی بلکہ سینٹ میں بھی اتحادی کے طورپر مل کر چلنے کا کہا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری نے سندھ میں الیکشن کمیشن کے اعلان کردہ نومبر کے بلدیاتی انتخابات میں بھی کراچی‘ حیدرآباد کا انتظام ایم کیو ایم کے حوالے کرنے اور سکھر‘ نوابشاہ‘ میرپور خاص کے بلدیاتی اداروں میں بھی حصہ دینے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس سے قبل پیپلزپارٹی نے فنکشنل لیگ کو بھی حکومت میں شمولیت اور سینٹ الیکشن میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کیلئے رابطہ کیا تھا۔ لیکن فنکشنل لیگ کی طرف سے انکار کے بعد ایم کیو ایم کے ساتھ رابطہ کیا گیا۔ پیپلزپارٹی سینٹ کی ایک سیٹ کے لالچ میں ایم کیوایم کو شریک اقتدار کرنے کی کوششوں میں ہے۔ جو محض ذاتی مفادات کی خاطر اقتدار کی بندر بانٹ میں نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اگر مفادات کی سیاست کریں گی تو پھر قومی سلامتی کاایجنڈا کیسے پورا ہو سکے گا۔ پیپلزپارٹی ایک نشست سے سینٹ میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کی خاطر یہ سارا کھیل کھیلنے جا رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پیپلزپارٹی پرفارمنس کی بنیاد پر آگے بڑھے اور اصولوں کی سیاست کرے۔ اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے والی جماعتیں ملک سلامتی کے تقاضے کیسے پورا کر سکتی ہیں؟