گرو کی برسی ،کشمیر اور عالمی ضمیر
پاکستان کی قومی اسمبلی نے 4 فروری 2015 کو ایک متفقہ قرار داد کے ذریعے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی تحریکِ آزادی میں اپنی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔5 فروری کو وزیرِ اعظم محمد نواز شریف نے مظفرآباد میں آزاد کشمیر اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس میں پاکستانی قوم اور حکومت کی جانب سے اظہارِ یکجہتی ظاہر کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ ”کشمیر کے بغیر اب بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے “۔
دوسری جانب کشمیری قوم 9 فروری کو شہید افضل گرو کی پھانسی کی دوسری برسی کے موقع پر دہلی سرکار کے مظالم کےخلاف بھر پور احتجاج کر رہی ہے ۔واضح رہے کہ دو برس قبل بھارت نے افضل گرو کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی اور شہید کا جسدِ خاکی بھی اس کے لواحقین کے سپرد کیے جانے سے انکار کر دیا تھا۔مبصرین نے اس پس منظر کا جائزہ لیتے کہا ہے افضل گرو کو 13 دسمبر 2001 کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے مبینہ حملے میں ملوث ہونے کے نام نہاد الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔طویل عدالتی کارروائی کے دوران ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی بھارتی حکومت پیش نہ کر سکی جس کا اعتراف خود بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ان الفاظ کے ذریعے کیا”اگرچہ افضل گرو کے خلاف اس جرم میں ملوث ہونے کی کوئی ٹھوس شہادت یا ثبوت استغاثہ فراہم نہیں کر سکا مگر بھارتی عوام کے اجتماعی احساسات اور خواہشات کی تسکین کی خاطر انھیں پھانسی دینا ضروری ہے“۔
مبصرین کے مطابق دنیا کی جدید عدالتی تاریخ میں ایسی بے انصافی کی مثال شائد ڈھونڈنے سے بھی نہ مل سکے ۔جب کسی ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ایک جانب اس امر کا اعتراف کر رہی ہو کہ ملزم کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں مگر دوسری طرف کسی فرد یا گروہ کی نام نہاد تسکین کی خاطر اس بے گناہ شخص سے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا جائے تو ایسے میں اس سزائے موت کو عدالتی قتل کے علاوہ اور بھلا کیا نام دیا جا سکتا ہے اور ایسا شائد برہمنی انصاف کے تقاضوں کے تحت ہی ممکن ہے وگرنہ کوئی مہذب اور نارمل انسانی معاشرہ شائد ایسی بے انصافی کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔
چند روز قبل یومِ یکجہتی کشمیر کے موقع پر پوری پاکستانی قوم اور قیادت نے جس جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا ہے ، وہ اس امر کا مظہر ہے کہ پاکستان کی جانب سے اپنے کشمیری بھائیوں کی جدوجہدِ آزادی میں سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی حمایت جاری رکھی جائے گی ۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمان نے بھی کہا ہے کہ تنازعہ کشمیر کے حوالے سے بھارت اور عالمی برادری کو اپنے وعدے پورے کرنے ہوں گے انھوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کی آزادی کی جدوجہد میں فعال کردار ادا کرتا رہے گا ۔
اس سانحہ کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف زبردست احتجاج کیا گیا۔6 روز تک مقبوضہ ریاست میں کوئی اخبار تک شائع نہ ہوا ،موبائل فون اور انٹرنیٹ پر پابندی عائد کر دی گئی اور احتجاج پر قابو پانے کے لئے قابض بھارتی افواج نے کرفیو نافذ کر دیا۔اس سانحہ کا جائزہ لیتے اعتدال پسند ماہرین نے کہا کہ بھارت سمیت دنیا کے سبھی ملکوں میں یہ مسلمہ روایت ہے کہ رحم کی اپیل خارج ہونے کے بعد سزائے موت دیے جانے سے قبل متعلقہ ملزم کے اہلِ خانہ کو باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے اور پھانسی دیے جانے والے فرد سے اس کے وارثوں کی آخری ملاقات کروائی جاتی ہے مگر دہلی سرکار نے اس حوالے سے بھی تمام انسانی اور اخلاقی ضابطوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گرو کے لواحقین کو نہ تو اس کی رحم کی اپیل خارج ہونے کی اطلاع دی اور نہ ہی اس کی آخری ملاقات کروائی گئی اور نہ اس کی میت لواحقین کے حوالے کیگئی اور تہاڑ جیل کے اندر ہی کسی نامعلوم گوشے میں دفن کر دیا گیا ۔بقول بہادر شاہ ظفر....
پسِ مرگ قبر پہ اے ظفر کوئی فاتحہ بھی کہاں پڑھے
جو ٹوٹی قبر کا تھا نشان اسے ٹھوکروں سے اڑا دیا
یاد رہے کہ 11 فروری 1984 کو دہلی کی تہاڑ جیل میں کشمیری رہنما مقبول بٹ پھانسی دی گئی تھی اور ان کا جسدِ خاکی بھی اسی جیل کے اندر کسی نا معلوم گوشے میں دفن کر دیا گیا تھا۔مگر اس کے فوراً بعد کشمیر میں تحریکِ آزادی کا نیا مرحلہ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ شروع ہو گیا تھا۔مبصرین کی رائے ہے افضل گرو کی شہادت بھی تحریکِ آزادی کشمیر کا نیا موڑ ثابت ہو گی ۔تبھی تو بھارت کی اہم سیاسی جماعت CPIM کے جنرل سیکرٹری ”پرکاش کرات“ نے اس پھانسی کے بعد کہا تھا کہ افضل گرو کو پھانسی لگا کر جموں کشمیر میں حالات کو مزید بگاڑنے کے لئے خود دہلی سرکار کی پالیسیاں ذمہ دار ہیں ۔14 مارچ2013 کے اکثر بھارتی اخبارات بشمول ”سہارا“ میں پرکاش کرات کا یہ بیان نمایاں ڈھنگ سے شائع ہوا ۔اس کے علاوہ نو بھارت ٹائمز نے لکھا کہ مقبوضہ ریاست میں بھارت نوازی کی روایتی شہرت رکھنے والی شخصیات اور جماعتیں بھی کشمیری عوام کے جذبات و احساسات کی وجہ سے بہت دباﺅ میں ہیں اور بھارت کی حمایت میں واضح کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔بہر کیف امید کی جانی چاہیے کہ دہلی سرکار مقبوضہ ریاست میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ ترک کر کے تعمیری روش اپناتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو وہاں کے عوام کی خواہشات اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی جانب سنجیدہ توجہ دے گی وگرنہ مکافاتِ عمل کے ابدی اصولوں کے تحت خود بھارت بھی مزید داخلی مشکلات سے دوچار ہو سکتا ہے۔