’’بینظیر کی حفاظت کی ذمہ داری ایس ایس پی امتیاز کی تھی‘‘ سرکاری گواہ اشفاق
راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ + بی بی سی) انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں بے نظیر بھٹو قتل کیس میں استغاثہ کے گواہ اس وقت کے ایس ڈی پی او سول لائنز اشفاق انور نے شہادت قلمبند کرائی۔ مجھے سوا 3 بجے سی پی او سعود عزیز نے کورال چوک پہنچنے کو کہا جہاں سی پی او بھی پہنچ گئے اور نواز شریف کے جلوس کی آمد پر قتل کا واقعہ ہوا تھا۔ ایس ایس پی اسلام آباد اور سی پی او راولپنڈی نے جائے وقوعہ کا جائزہ لیا تو یہ واردات تھانہ کورال اسلام آباد کی حدود میں نکلی۔ اس دوران لیاقت باغ کا واقعہ رونما ہوا۔ خصوصی عدالت کے جج نے اتوار کو سانحہ لیاقت باغ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس کی جیل ٹرائل کے دوران استغاثہ کے دو گواہوں اشفاق انور اور ایف آئی اے کراچی کے نثار جدون کی شہادتیں اور وکیل صفائی ملک محمد رفیق کی جرح قلمبند کیں۔ اڈیالہ جیل میں مقدمے کی سماعت کے موقع پر ضمانت پر رہا دو پولیس افسران سعود عزیز‘ خرم شہزاد کے علاوہ ملزمان اعتزاز شاہ‘ عبدالرشید‘ شیر زمان‘ رفاقت حسنین گل حاضر تھے۔ مقدمے کی سماعت آج منگل پر ملتوی کی گئی اور شہادت کے لئے مزید دو گواہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ریکارڈ کیپر گلزار محمد خان اور آئی ایس آئی کے آپریٹر اسماعیل طلب کر لئے گئے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے کی سماعت میں ایک نیا موڑ آگیا، سرکاری گواہ اور ایس ایس پی جعفر آباد محمد اشفاق انور نے کہا بینظیر بھٹو کی حفاظت کی ذمہ داری اْن کے سیکیورٹی افسر ایس ایس پی میجر ریٹائرڈ امتیاز پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے سابق وزیر اعظم کولیاقت باغ کے باہرگاڑی سے باہر نکلنے کی اجازت دی۔اس سے پہلے پیپلز پارٹی کے دور میں اشفاق انور نے اسلام آباد کے مجسٹریٹ کو ایک بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں اْنھوں نے سکیورٹی کی کمی کی تمام تر ذمہ داری اْس وقت کے ڈی آئی جی راولپنڈی سعود عزیز پر عائد کی تھی۔ اس بیان کے بعد اشفاق انور خصوصی کورس کے لیے بیرون ملک روانہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا پولیس نے لیاقت باغ جلسے کے دوران بینظیر بھٹو کی حفاطت کو یقینی بنانے کے لیے اپنی طاقت سے بڑھ کر اقدامات کیے تھے جبکہ مقامی انتظامیہ اور پیپلز پارٹی کے درمیان یہ تحریری معائدہ ہوا تھا 27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو جلسہ عام سے خطاب کرنے کے بعد واپس چلی جائیں گی لیکن اس کے بعد انہوں نے بلٹ پروف گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا جس کی وجہ سے خودکش حملہ آور کو کارروائی کرنے کا موقع مل گیا۔ واضح رہے اس مقدمے میں گرفتار پانچ ملزمان نے تفتیش کے دوران یہ اعتراف کیا تھا لیاقت باغ کے جلسے کے دوران اْنھیں کارروائی کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا اور انہوں نے طے کرلیا تھا وہ جہلم میں بینظیر بھٹو کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش کریں گے جہاں پر اْنھیں نے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔