• news

ترقیوں میں نظرانداز بیوروکریٹس کی درخواست، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا

اسلام آباد (اے پی پی) سپریم کورٹ نے ترقیوں میں نظر انداز کئے گئے بیوروکریٹس کی جانب سے دائر درخواست کے حوالے سے کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا اورہدایت کی ہے کہ مقدمہ کے دوران اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے متاثرہ افسروں کے کوائف طلب کئے جانے کیلئے لکھے گئے خط پر عمل درآمد روک دیا جائے۔ یادرہے کہ سنٹرل سلیکشن بورڈ کی جانب سے ترقی کیلئے بھیجے گئے ناموں میں سے 40 افسروں کے کیس وزیر اعظم نے واپس بورڈ کو دوبارہ غور کیلئے بھجوائے تھے جس پر متعلقہ افسروں میں سے بعض نے اسلام آباد اور دیگر نے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے افسروں کے حق میں فیصلہ دیا جس پر حکومت نے اس کیخلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی جو مسترد کردی گئی جس پر حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہاکہ وزیر اعظم کو افسروں کے نام واپس بھیجنے کا اختیار حاصل ہے جبکہ درخواست گزاروں کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے موقف اپنایاکہ بیشک وزیر اعظم کو نام مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہے مگر یہ اختیار لامحدود نہیں، بلکہ اس کا درست استعمال ضروری ہے، عاصمہ جہانگیر نے ان افسروں کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹس کا بھی حوالہ دیا جن میں آئی بی نے ان افسروں کو کلیئر کیا تھا جبکہ ان کے سیکرٹریز کی جانب سے بھی کسی افسر پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا ۔انہوں نے کہاکہ افسروں کی ہر سال ایک اے سی آر بنتی ہے جس کی بنیاد پر سنٹرل سلیکشن بورڈ ان کو نمبر دیتا ہے اور اسی کی بنیاد پر ترقی عمل میں آتی ہے، یہی رول اور یہی روایت ہے ان کے موکل افسروں کی اے سی آر مکمل طور پر بے داغ ہیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں سپریم کورٹ کے مختلف فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ سلیکشن بورڈ کی سفارشات صرف مشاورتی ہوتی ہیں وزیراعظم کے پاس انہیں منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ہے، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ جب وزیراعظم نام واپس بورڈ کو بھیجے اور وہ انہیں ویسے ہی منظوری کیلئے وزیراعظم کو دوبارہ بھیج دے تو اس صورت میں کیا وزیراعظم یہ نام منظور کرنے کا پابند ہوگا کیونکہ اگر اب بھی منظوری نہیں ملتی تو نام ایک دوسرے کو بھجوانے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بورڈ کے پاس ان افسروں سے متعلق کوئی منفی رپورٹس نہیں تھیں اس لئے اس نے سفارش کر دی مگر وزیر اعظم کے پاس تھیں، ان افسروں کے متعلق وزیر اعظم کے پاس ایسا میٹریل موجود تھا جو میں سر عام نہیں بتا سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہائیکورٹس کو یہ درخواستیں سننے کا اختیار ہی نہیں تھا بلکہ یہ اختیار آئین کے آرٹیکل 212کے تحت فیڈرل سروس ٹریبونل کا تھا کیونکہ ترقی بنیادی حق نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ ترقی کیلئے نام زیر غور لانا بنیادی حق ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ ترقی دی جائے۔
فیصلہ محفوظ

ای پیپر-دی نیشن