عمران میانوالی میں عام سا اچھا ہسپتال کیوں نہیں بنواتا
میں نے ذاتی طور پر عمران خان سے مل کے کہا تھا کہ اپنے آبائی حلقے میانوالی میں ایک عام ہسپتال ضرور بنوائیں۔ ان لوگوں کا آپ پر حق ہے۔ جب پورے پاکستان میں تحریک انصاف کو ایک ہی سیٹ ملی تھی تو وہ میانوالی سے تھی اور جس پر آپ کو میانوالی کے غیرت مند لوگوں نے اپنا بیٹا جان کر منتخب کیا تھا۔ قومی اسمبلی پہنچ کر آپ نے اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا تھا۔ یہ نہ ہوتا تو آپ قومی سطح کے لیڈر نہ ہوتے۔ دوسری بار بھی آپ چار سیٹوں سے الیکشن لڑے جبکہ کسی سیاستدان کو ایک سے زیادہ حلقوں میں الیکشن لڑنے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔
الیکشن سے پہلے کبھی میانوالی کو عمران نے اپنا علاقہ نہ سمجھا تھا۔ مگر اس کے باوجود میانوالی کے لوگوں نے عمران کو میانوالی کے ایک فرزند کے طور پر قبول کیا۔ آپ نے میانوالی کی سیٹ بھی چھوڑ دی۔ میں نے آپ کو زبانی بھی کہا پھر کالم میں بھی لکھا جس میں میانوالی کے لوگوں کے خطوط اور امنگیں بھی شامل تھیں مگر آپ نہ مانے اور اپنی آبائی سیٹ عائلہ ملک کے حوالے کر دی۔ وہ نااہل ہوئی تو اس نے اپنے غیرمعروف سمدھی کو دے دی۔ سمدھی حکومت میں ہیں تو اپوزیشن میں بھی ہیں۔ وہ بری طرح ہار گیا۔ لوگوں نے اپنا غصہ نکالا۔ پشاور والی بھی سیٹ چھوڑنے پر عمران کے لئے لوگوں میں بہت غصہ تھا۔ وہاں سے بھی تحریک انصاف ہار گئی۔ دوسرے نمبر پر پشاور کا حق تھا۔ آج تک عمران نے کسی کا حق پورا نہیں کیا۔ چلئے پشاور میں تو شوکت خانم کینسر ہسپتال بن رہا ہے مگر میانوالی ایک چھوٹے موٹے عام ہسپتال سے بھی محروم ہے۔ لوگ اپنی حاملہ عورتوں کو کھوتیوں پر لاد کر ہسپتال لاتے ہیں اور وہ راستے میں مر جاتی ہیں۔ ہسپتال پہنچ بھی جائیں تو وہاں بھی مر جاتی ہیں۔ ان کے پیٹ میں بچہ بھی مر جاتا ہے۔ کیا یہ صورتحال کینسر سے زیادہ سنجیدہ اور مہلک نہیں ہے؟ میانوالی کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں نہ ڈاکٹر ہے دوا ہے نہ کوئی سہولت ہے۔ تمام ٹیسٹ باہر سے کروانے کے لئے حکم دیا جاتا ہے۔ عمران میانوالی کا نمائندہ پہلے ہے۔ پاکستان کا سیاستدان بعد میں ہے۔ اس کے حکمران بننے سے لوگوں کو پہلے وزیراعظموں سے زیادہ مایوسی ہو گی۔ کیونکہ ان کے امیدیں ٹوٹیں گی۔ عمران خان کے دوست کالم نگار توفیق بٹ نے لکھا تھا کہ اللہ کرے عمران حکمران نہ بنے تاکہ عوام کی امیدیں نہ ٹوٹیں کیونکہ وہ آخری امید ہے۔
میانوالی میں عمران نے نمل یونیورسٹی بنائی ہے جس کا الحاق بریڈ فورڈ یونیورسٹی سے ہے مگر اب عمران بریڈ یونیورسٹی کا بھی چانسلر نہیں ہے۔ نمل یونیورسٹی ایک اجاڑ ویران جگہ پر ہے۔ جس کے ساتھ کسی قسم کی ڈویلپمنٹ کی سو سال تک امید نہیں ہے۔ یہ یونیورسٹی میرے ایک فلاحی مزاج کے دوست وارث نیازی کے بقول میانوالی شہر کے قریب ہونا چاہئے تھی۔ میانوالی عمران کے حلقے میں نہیں آتا تو اس کے قریب کسی شہر میں ہو سکتی تھی۔ جہاں سے آسانی کے ساتھ اپروچ ممکن ہو۔ نمل یونیورسٹی بہرحال ایک ترقیاتی منصوبہ ہے مگر ابھی پچاس ساٹھ سال تک میانوالی کے لوگوں کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔ عمران کینسر ہسپتال تو لاہور پشاور اور کراچی میں بناتا ہے مگر یونیورسٹی ایک بیابان اور غیرمعروف جگہ پر بناتا ہے جہاں سے ساتھ والے علاقے کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ابھی میانوالی کے بچوں کو اچھے سکولوں کی ضرورت ہے۔ اچھے کالجوں کی ضرورت ہے۔ اس طرف عمران کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ پینے کا صاف پانی نہیں ہے۔ سڑکیں نہیں ہیں بلکہ کچے راستوں کا بھی برا حال ہے۔
عمران نے وہاں کچھ بھی نہیں کروایا۔ جو شخص اربوں روپے سے کینسر ہسپتال بنوا سکتا ہے۔ وہ اپنے آبائی علاقے میں چند اچھے سکول چند اچھے ہسپتال کالج اور سڑکیں کیوں نہیں بنوا سکتا۔ میانوالی کے غیرت مند لوگ اس کے باوجود اسے ووٹ دیں گے۔ انہوں نے مولانا عبدالستار خان نیازی کو بھی ووٹ دیے۔ اس کے ساتھ محبت کی اور ذلیل و خوار ہوئے۔ آخری عمر میں اس نے ایک بے حیثیت وزیر بن کر اپنی سیاسی عاقبت خراب کی۔ ان کے کرپٹ رشتے دار اور کارکن لوٹ مار میں سب سے آگے بڑھ گئے۔ اس عرصے میں بھی مولانا نیازی نے میانوالی کے لئے کوئی کام نہ کیا۔ مولانا نیازی کو پتہ بھی نہ چلا؟ اس کے پاس نہ گھر تھا نہ کوئی جائیداد۔ میں ان کے ویران مقبرے میں گیا تھا۔ وہاں اداسی ویرانی اور بیزاری دیکھ کر دکھ ہوا۔
چند دن پہلے برادرم مبشر لقمان کے پروگرام میں دو گھنٹوں کے اندر ایک ارب روپے سے زیادہ پیسہ اکٹھاہو گیا اور یہی اپنی ضرورت عمران نے بتائی تھی۔ مگر وہ پروگرام میں کہہ رہا تھا کہ اس سے زیادہ پیسوں کی ضرورت بھی ہو سکتی ہے۔ وہ رقم نجانے کہاں خرچ ہو گی؟ میری گذارش مبشر لقمان سے ہے کہ عمران کے آبائی حلقے میں ایک عام چھوٹے اچھے ہسپتال کے لئے دو چار کروڑ کی ضرورت ہے۔ وہ بھی اکٹھے کر دیں اور عمران کو مجبور کریں کہ میانوالی میں ایک ہسپتال بنوائیں۔ مجھ سے ایک بار عمران نے میانوالی میں ہسپتال بنوانے کا وعدہ کیا تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں یہ بات کالم میں لکھ دوں گا اور وہ ریکارڈ ہو جائے گی اور میں نے کالم میں لکھ دیا مگر یہ ہسپتال آج تک نہیں بنا۔ مبشر لقمان بھی عمران سے پکا وعدہ لے مگر سیاستدان وعدے پورے نہیں کرتے۔ عمران نے آج تک ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔