پنجاب اسمبلی: گستاخانہ خاکوں کے خلاف اور نجی تعلیمی اداروں پر آڈٹ کے بعد ٹیکس سمیت3 قراردادیں منظور
لاہور (خصوصی رپورٹر+ خبرنگار + کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی نے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے خلاف قرارداد منظور کرلی جبکہ نجی تعلیمی اداروں کے سالانہ آڈٹ کی بنیاد پر ٹیکس عائد کرنے اور سبزیوں پر انسانی صحت کیلئے مُضر صحت ادویات کے سپرے پر پابندی کی قراردادیں بھی منظور کرلی گئیں جبکہ اپوزیشن نے وزیراعلی پنجاب اور وزراء کی غیرحاضری پر شدید احتجاج کیا اور 10 کے قریب ارکان نے کافی دیر تک ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دی۔ توہین آمیز خاکوں کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ قرارداد صوبائی وزیر طاہر خلیل سندھو نے پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا کہ صوبائی اسمبلی کا یہ ایوان فرانسیسی جریدے میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی مذمت کرتا ہے۔ اظہار رائے کی آڑ میں بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں شاہ عبداللہ کی انتقال پر تعزیتی قرارداد منظور کر لی گئی۔ قرارداد صوبائی وزیر طاہر خلیل سندھو نے پیش کی۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان سعودی عرب کے شاہ عبداللہ کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے۔ علاوہ ازیں شکارپور کے ٹریفک حادثہ میں جاں بحق افراد کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ مفاد عامہ سے متعلق دو قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر لی گئیں۔ مسلم لیگ (ق) کے رکن اسمبلی عامر سلطان چیمہ کی قرارداد نامنظور کر دی گئی جبکہ نگہت شیخ کی نجی تعلیمی اداروں کے سالانہ آڈٹ اور اس آڈٹ کی بنیاد پر ان پر ٹیکس لگانے کی قرارداد صوبائی وزیر کی مخالفت کے بعد اپوزیشن کی بھرپور حمایت پر منظور کر لی گئی۔ نگہت شیخ کی نجی تعلیمی اداروں کے آڈٹ کی قرارداد پیش ہوئی تو صوبائی وزیر طاہر خلیل سندھو نے اس کی مخالفت کی۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت ان سکولوں کو فنڈ نہیں دیتی تو ان کا آڈٹ کیوں کرائے جس پر حکومتی رکن شیخ علائو الدین نے کہا کہ حکومت بنکوں کو پیسہ نہیں دیتی مگر سٹیٹ بنک ان کا آڈٹ کرتا ہے۔ نجی تعلیمی ادارے کمرشل ادارے ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں لایا گیا۔ نگہت شیخ نے کہا کہ یہ دیکھا جائے کہ فیس وصول کر رہے ہیں اس کے مطابق سہولت دے رہے ہیں۔ سرکاری رکن ملک محمد احمد نے کہا کہ سرکاری سکولوں کا جو حال ہے لوگ نجی سکولوں میں بچے نہ بھیجیں تو کیا کریں۔ عامر سلطان چیمہ کی جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریوں اور جعلی ادویات بیچنے والے میڈیکل سٹوروں کے خلاف سخت کارروائی اور اس دھندے میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کیلئے قانونی اقدامات کی قرارداد کی صوبائی وزیر طاہر خلیل سندھر نے یہ کہہ کر مخالفت کی کہ ہم پہلے ہی اس برائی کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں۔ جس پر عامر سلطان چیمہ نے کہا کہ افسوس کہ حکومت والے جعلی ادویات کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ سپیکر نے رائے شماری کرائی اور قرارداد کو سرکاری ارکان نے نامنظور کر دیا۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر کی سبزیوں پر انسانی صحت کیلئے مضر صحت ادویات کے سپرے پر پابندی کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی جبکہ عامر سلطان چیمہ کی آرمی اور پولیس کی بغیر لائسنس فروخت کرنیوالوں کے خلاف سخت کارروائی کی قرارداد کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ حکومت اس بارے قانون میں پہلے ہی ترمیم کر چکی ہے۔ علاوہ ازیں وقفہ نماز کے بعد اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے قاضی سعید، سردار شہاب الدین، (ق) لیگ کے عامر سلطان چیمہ، وقاص اختر موکل، خدیجہ عمر، وسیم اختر، احسن فتیانہ نے احتجاج شروع کیا ان کا کہنا تھا کہ وقفہ سوالات میں وزیر کی طرف سے دئیے گئے جوابات سے ارکان اسمبلی مطمئن نہیں ہیں، جبکہ سپیکر کا کہنا تھا کہ آپ کیسے کہتے ہیں کہ مطمئن نہیں سب ارکان مطمئن تھے کسی نے عدم اطمینان ظاہر نہیں کیا۔ اس موقع پر حکومتی رکن ملک احمد خان نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عام ارکان مطمئن نہیں۔ سردار وقاص حسن موکل نے نکتہ اعتراض پر بولنا چاہا تو سپیکر نے کہا آپ تقریر نہیں کریں گے جس پر سردار وقاص اختر موکل نے کہا کہ آپ میاں نواز شریف کے خلاف سازش کر رہے ہیں آپ نواز شریف کے خلاف ہیں، جس پر سپیکر نے کہا کہ آپ مجھے پارٹی نہ بنائیں، سردار وقاص موکل نے کہا کہ تیسرا سیشن شروع ہوا ہے وزیراعلی اجلاس میں نہیں آ رہے سپیکر نے کہا کہ اگر وزیراعلی میرے کہنے پر آتے ہیں تو میں ساتھ چلنے کو تیار ہوں۔ اس موقع پر حکومتی رکن ملک احمد خان نے کہا کہ اپوزیشن ارکان جو کہہ رہے ہیں یہ متفقہ ہے۔ وزراء ایوان میں کیوں نہیں آتے مسائل کو حل کیوں نہیں کرتے۔ علاوہ ازیں بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کے تحت امتحان دینے والے طلبہ کے پرچوں کی ری چیکنگ اور ری کائونٹنگ کا معاملہ زیر بحث رہا۔ علاوہ ازیں آزاد ممبر اسمبلی احسن ریاض فتیانہ نے مسلسل تین مرتبہ کورم کی نشاندہی کرکے نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ قائم مقام سپیکر پنجاب اسمبلی سردار علی گورچانی نے جونہی وقفہ سوالات کا اعلان کیا اور ڈاکٹر سید وسیم اختر کو مائیک دیا، احسن فتیانہ نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنے کیلئے تکرار کی قائم مقام سپیکر نے سوال کے بعد انہیں مائیک دینے کی یقین دہانی کرائی لیکن احسن فتیانہ نے کورم نہ ہونے کی نشاندہی کر دی۔ پانچ منٹ بعد گنتی کی گئی اور کورم پورا پا کر اجلاس کی کارروائی آگے بڑھائی گئی۔ احسن فتیانہ نے پونے پانچ بجے دوبارہ کورم کی نشاندہی کی۔ تیسری مرتبہ سوا پانچ بجے کورم کی نشاندہی کی گئی اس مرتبہ بھی کورم نہیں تھا تاہم پانچ منٹ گھنٹیاں بجنے پر حکومتی ممبران نے کورم پورا کر دیا۔ قائم مقام سپیکر سردار شیر علی گورچانی کا کہنا تھا کہ ایسا رویہ مناسب نہیں احسن فتیانہ نے اپنی تحریک استحقاق کو ٹیک اپ نہ کرنے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر سید وسیم اختر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بے روزگاری عروج پر ہے نوجوان ڈگریاںی ہاتھوں میں لیکر روزگار کے لئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ملک میں دہشت گردی، بدامنی، بدعنوانی کا بازار گرم ہے۔ ظلم و جبر پر مبنی اس نظام کو ختم ہونا چاہئے۔ علاوہ ازیں وفقہ سوالات کے دوران پارلیمانی سیکرٹری بلدیات رمضان صدیق بھٹی نے اعلان کیا کہ الیکشن کمشن کی جانب سے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کا شیڈول آنے پر پنجاب حکومت ایک ماہ میں بلدیاتی انتخابات کروا دے گی۔ انہوں نے کہا کہ نئے بلدیاتی نظام کا مسودہ ایوان سے منظوری کے بعد سرکاری گزٹ میں شائع کر دیا گیا ہے اور پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 13 ستمبر 2013ء سے نافذ ہو چکا ہے جبکہ سپریم کورٹ اور الیکشن کمشن کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء میں مناسب ترامیم کی گئی ہیں، اب حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمشن کو تفویض کیا گیا ہے اور الیکشن کمشن کی جانب سے حلقہ بندیاں کروانے کے بعد پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہونگے۔ اپوزیشن ممبران کے علاوہ بعض حکومتی ممبران نے بھی پارلیمانی سیکرٹری پارلیمانی امور کو آڑے ہاتھ لیا۔ اپوزیشن بنچوں سے پیپلز پارٹی کے قاضی احمد سعید اور جماعت اسلامی کے ڈکٹر سید وسیم اختر سمیت چند دیگر ممبران نے ایوان میں وزیر قانون و پارلیمانی امور کی عدم موجودگی میں واک آئوٹ کیا تاہم صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرور اپوزیشن ممبران کو منا کر ایوان میں واپس لے آئے۔ اجلاس میں حکومتی ممبران شیخ علائو الدین، میاں محمد نصیر، راحیلہ خادم حسین، وحید گل نے پارلیمانی سیکرٹری پارلیمانی امور کو ٹف ٹائم دیا۔ شیخ علائو الدین نے تحریک التوا کے ذریعے نشاندہی کی کہ فنانس بل کے مطابق پرائیویٹ سکولوں کو پابند کیا گیا ہے کہ دس فیصد غریب بچوں کو اپنے سکول میں داخل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیکن ہائوس، لاہور گرامر سکول، لرنر الائنس سکول میں دس فیصد تو دور کی بات ہے پارلیمانی سیکرٹری 10 بچوں کے ناموں کی نشاندہی کر دیں۔ اس پر پارلیمانی سیکرٹری نے جو جواب دیا قائم مقام سپیکر نے اسے درست تسلیم کر لیا تاہم شیخ علائو الدین برستے رہے کہ آج اسمبلیوں کا وقار اس لئے نہیں رہا کہ یہاں غریبوں کی بات نہیں سنی جا رہی۔ قائم مقام سپیکر نے شیخ علائو الدین کو ہدایت کی کہ وہ لاہور کے متذکرہ بالا سکولوں کی خود جانچ پڑتال کریں اور ایوان میں رپورٹ پیش کریں تاہم شیخ علائوالدین نے اصرار کیا کہ سپیکر بااختیار ہیں، وہ پارلمیانی کمیٹی بنائیں جو اس امر کا جائزہ لے کہ 10 فیصد غریب بچوں کو پرائیویٹ سکول اکاموڈیٹ کر رہے ہیں یا نہیں۔ اس تجویز کی تائید صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرور اور اپوزیشن ممبران نے کی تاہم سپیکر معاملہ گول کر گئے جس پر اپوزیشن ممبران نے علامتی واک آئوٹ کیا۔