’’برے کردار کا الزام لگا کر قتل کرنا کیسے جائز ہے‘‘، ممتاز قادری کیس کا فیصلہ محفوظ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سلمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کی سزائے موت کیخلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ دوران سماعت جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کسی پر برے کردار کا الزام لگا کر قتل کرنا کیسے جائز ہے؟ جسٹس نورالحق قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے ممتاز قادری کی سزائے موت کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔ ممتاز قادری کے وکیل جسٹس (ر) میاں نذیر اختر نے سات روز سے جاری دلائل مکمل کئے جس کے بعد انتظامیہ کی طرف سے اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف نے دلائل ایک گھنٹے میں مکمل کر لئے۔ میاں عبدالرؤف نے کہا کہ ملزم نے خود سلمان تاثیر کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ ممتاز قادری کی جانب سے ابھی تک کوئی اخباری مواد بھی پیش نہیں کیا گیا جس میں توہین رسالت قانون کو بلیک لا کہا گیا ہو۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ توہین رسالت کا الزام ثابت کرنے کیلئے کون سے ثبوت پیش کرنے ہوتے ہیں؟ میاں عبدالرؤف نے بتایا کہ اگر توہین رسالت تحریری ہو تو شواہد پیش کئے جاتے ہیں۔ زبانی ہو تو گواہ پیش کئے جاتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پھانسی کا فیصلہ تحریر کراتے وقت جج نے کہیں شواہد کا ذکر نہیں کیا، کیس کی نوعیت کو مدنظر رکھیں۔ ایڈووکیٹ جنرل نے استدعا کی کہ تحریری دلائل جمع کرانا چاہتا ہوں جسے عدالت نے منظور کر لیا۔ بی بی سی کے مطابق بنچ کے سربراہ نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ اگر کسی شخص کا کردار متنازعہ ہو جائے تو قانون میں اس کیلئے کیا سزا تجویز ہے؟ اس پر میاں رؤف نے کہا کہ اگر کسی شخص پر کسی غیر قانونی اقدامات کرنے کا الزام ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ صباح نیوز کے مطابق مقدمے کے سرکاری وکیل میاں رؤف نے دلائل میں کہا کہ ممتاز قادری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کا اعتراف کیا ہے اس کے علاوہ پولیس نے مجرم کے قبضے سے آلۂ قتل بھی برآمد کیا ہے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ممتاز قادری کے اعتراف جرم پر ہی انہیں موت کی سزا سنائی ہے۔ مجرم اعتراف جرم کرنے کے بعد کیسے اس سزا کے خلاف اپیل دائر کر سکتا ہے؟ بنچ کے سربراہ نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ اگر کسی شخص کا کردار متنازعہ ہو جائے تو قانون میں اس کے لیے کیا سزا تجویز کی گئی ہے؟ میاں رؤف نے کہا کہ اگر کسی شخص پر غیر قانونی اقدامات کا الزام ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق ہی کارروائی ہوگی۔ کاروکاری سے متعلق سپریم کورٹ کے ایسے بہت سے فیصلے موجود ہیں جس میں اس اقدام کو خلاف قانون قرار دیا گیا ہے۔ ان فیصلوں میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی کو کسی حالت میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ اعلی عدلیہ کے ججوں سمیت کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ ملک میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں مخالفین کے خلاف توہین مذہب کے الزامات لگا کر انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا ان مجرموں کو عدالت نے معاف نہیں کیا اور ذمہ داروں کو سزائیں سنائیں۔ قانون کی عمل داری کو یقینی نہ بنایا گیا تو پھر ملک میں جنگل کا قانون رائج ہو جائے گا، ہر شخص خود ہی منصف بن کر فیصلے دینے لگے گا۔ اس سے قبل جسٹس (ر) میاں نذیر نے کہا کہ چونکہ ان کے مؤکل نے یہ سمجھا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کے قانون کی مخالفت کی ہے اس لیے انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ چونکہ اس واقعہ میں مذہب کا عمل دخل ہے اس لیے اس مقدمے کو فیڈرل شریعت کورٹ میں بھیجا جائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق سلمان تاثیر کے اہلخانہ نے عدالت میں تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔ سلمان تاثیر کے بیٹے شان تاثیر اور 2 بیٹیوں نے پھانسی کے خلاف اپیل خارج کرنے کی درخواست کی ہے۔ درخواست گزاروں کا مؤقف ہے کہ ممتاز قادری رحم کے قابل نہیں وہ سلمان تاثیر کا محافظ تھا اور اس نے فرض سے غداری کی ہے۔