پارلیمنٹ کو آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کا اختیار ہے یا نہیں تعین ضروری ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نیٹ نیوز+ بی بی سی+ ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اس بات کا تعین کیا جانا ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کو ملکی آئین کے بنیادی ڈھانچے میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس 21ویں ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران دیئے۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اس آئینی ترمیم کے خلاف لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی طرف سے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی۔ صوبہ خیبر پی کے کے ایڈووکیٹ جنرل کی طرف سے درخواست پر سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا گیا جبکہ باقی تین صوبوں نے مزید مہلت مانگ لی۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں بھی گذشتہ چار سال سے زیرالتوا ہیں، اب سپریم کورٹ دونوں ترامیم کے خلاف درخواستوں کو یکجا کر کے ا±نہیں سنے گی۔ درخواست گزار لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل حامد خان نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں میں حقائق مختلف تھے۔ مذکورہ ترمیم میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے اختیارات پر قدغن لگانے کی جو بات کی گئی تھی اسں بارے میں سپریم کورٹ کے احکامات پر 19ویں ترمیم میں دور کیا گیا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ ا±ن کی درخواست کو الگ سے سنا جائے جس سے عدالت نے اتفاق نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے 21ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کےخلاف دائردرخواستوں کی سماعت میں وفاق اور تینوں صوبوں پنجاب، سندھ اور بلوچستان کو 10 روزمیں جوابات جمع کرانے کی ہدایت کی۔ عدالت نے درخواست گزار ندیم احمد سمیت تمام فریقوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی۔ اٹارنی جنرل سلمان بٹ نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا تھا کہ اس معاملے پر مزید دراخواستیں عدالت میں دائر ہوئی ہیں سب کا اکٹھا جواب دینا چاہتے ہیں اسں لئے جواب جمع نہیں کرا سکے، عدالت کچھ مہلت دے جواب جمع کرا دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے تمام فریقین کومناسب وقت دیا تھا لیکن پھر بھی جواب جمع نہیں کرائے گئے، باقی درخواستوں میں بھی وہی قانونی اور آئینی سوالات اٹھائے گئے ہیں جو پہلی درخواست میں اٹھائے گئے ہیںاس میں توکوئی مشکل نہیں تھی، صرف قانونی سوالات کے جوابات دینے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت میں 18ویں ترمیم کے خلاف درخواستیں موجود ہیں جوگزشتہ چار سال سے زیر التوا ہیں ان میں بھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کا سوال اٹھایا گیا ہے ، 21 ترمیم کیخلاف بھی درخواستوں میں اسی نکتہ کواٹھایا گیا ہے۔ دونوں ترامیم کیخلاف درخواستوں میں یہ سوال مشترک ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مولوی اقابل حیدر نے دو درخواست دائر کی ہیں ایک ملٹری کورٹس کے قےام کے حق میں اور مخالفت میں عدالت جاننا چاہتی ہے ان کا کون سا موقف تسلیم کےا جائے، ان کا کون سا حق متاثر ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور جواب داخل ہونے کے بعد دلائل کے مرحلے پر فل کورٹ تشکیل دیا جائیگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم کیخلاف درخواستوں میں بھی بنیادی ڈھانچے کی بات کی گئی ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ آئین کا کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے بھی یا نہیں، اگر ہے تو کیا پارلیمنٹ اس میں ترمیم کر سکتی ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ابتدائی سطح پر فل کورٹ بنچ نہیں بنا سکتے۔ فل کورٹ اس وقت بنایا جائے گا جب مقدمہ دلائل کی سطح پر پہنچے گا۔ عدالت نے دیکھنا ہے کہ یہ ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہیں یا نہیں۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم کیخلاف دائر مقدمہ ازسرنو سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ 21ویں ترمیم کیخلاف دائر درخواستوں پر وفاق اور صوبوں کے جوابات آنے تک یہ معاملہ فل کورٹ کو نہیںبھیجا جا سکتا۔