دہشت گردوں کی مددگار تنظیموں کیخلاف آپریشن ہونا چاہئے: نوازشریف
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ کلچرل رپورٹر+ نوائے وقت نیوز) وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ جب تک آخری دہشت گرد کو ختم نہیں کردیتے چین سے نہیں بیٹھیں گے، قومی اتفاق رائے سے نیشنل ایکشن پلان بنایا اور اس پر عمل کررہے ہیں، بھارت کے خارجہ سیکرٹری پاکستان آئیں گے تو خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بات ہوگی ۔کشمیر سمیت بھارت سے تمام معاملات پر بات کریں گے، میڈیا اپنے لئے خود ضابطہ اخلاق بنائے حکومت سے جو تعاون درکار ہوگا حکومت دیگی، میڈیا دو سال تک اپنی ریٹنگ بھول کر قومی معاملات میں حکومت کا ساتھ دے، پاکستان میں ہونیوالی دہشت گردی میں غیر ملکی ہاتھ خارجہ از امکان نہیں، بلوچستان میں اس کے شواہد ملے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کونسل آف پاکستان نیوز ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر سی پی این ای کے صدر مجیب الرحمان شامی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ نوائے وقت گروپ کی ایڈیٹر انچیف رمیزہ نظامی، سی پی این ای کے سابق صدور جمیل اطہر، عارف نظامی، سی پی این ای کے عہدیداران و سینئر صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر سی پی این ای کی طرف سے اعزازات تقسیم کئے گئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، یہ جملہ ہر مقرر کہتا ہے لیکن میں یہ جملہ دل سے کہہ رہا ہوں کیونکہ میں پاکستان کو در پیش مسائل کا سامنا کر رہا ہوں اور انکو حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ نیشنل ایکشن پلان بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، میڈیا کو بھی اس میں شامل ہونا چاہئے۔ دوسال کیلئے میڈیا اپنی ریٹنگ اور بزنس کو بھول کر حکومت کی مدد کرے، جب ملک مضبوط ہوگا تو تمام ادارے مضبوط ہوں گے۔ مجھے میڈیا کی آزادی سے پیار ہے مگر بعض اوقات میڈیا نے مثالی کردار ادا نہیں کیا۔ مشرف کے مارشل لاء کے وقت میڈیا تقسیم تھا بلکہ ون سائیڈڈ تھا۔ سی پی این ای کو ایسے لوگوں کا محاسبہ کرنا چاہئے، جب دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا تو بھی میڈیا کا کردار کچھ اچھا نہیں تھا، بہت سے چینلز نے انکا ساتھ دیا جبکہ چند چینلز نے انکا ساتھ نہیں دیا۔ آپکی تنظیم کو سوچنا چاہئے تھا کہ دھرنوں کا مقصد کیا ہے۔ یہ دھرنے ایسے وقت میں دئیے گئے جب پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا تھا، جب دھرنے شروع ہوئے تمام عالمی رہنمائوں کے دورے منسوخ ہوگئے۔ چین، سری لنکا اور مالدیپ کے صدور کے دورے کینسل ہوئے، روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی، دنیا میں پاکستان کی سکیورٹی کے بارے میں شکوک و شہات پیدا ہوئے۔ یہ دھرنے والے پہلے لاہور میں اکٹھے ہوئے پھر اسلام آباد میں، پارلیمنٹ ہائوس اور پی ٹی وی پر حملہ کیا، ایوان صدر کوبلاک کیا، بعض چینلز نے کہا کہ نوازشریف استعفیٰ دینے والا ہے۔ کیا کسی نے میڈیا کا محاسبہ کیا، اگر ہم کچھ کرتے تو آپ کہتے میڈیا پر پابندیاں لگا دی گئیں، آپ خود ایسے لوگوں کا محاسبہ کریں، اگر حکومت ضابطہ اخلاق بنائے گی تو وہ زیادہ موثر نہیں ہوگا، اگر آپ بنائیں تو وہ زیادہ موثر ہوگا، یہ ملک جتنا میرا ہے اتنا ہی آپ کا ہے، اپنی ذات کی فکر کم کریں اور ملک کی فکر زیادہ کریں، اگر میں کسی کو پسند نہیں تو یہ مناسب نہیں کہ وہ مجھ پہ بے جا الزامات لگانا شروع کر دے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھگانے کی کوشش کرے، ایسی باتیں میڈیا پرسنرز کو زیب نہیں دیتیں ،میں آزاد میڈیا اور آزاد عدلیہ کا حامی ہوں ۔اگر میڈیا اور عدلیہ مضبوط ہوگی تو ملک مضبوط ہوگا ۔ملک کے حالات سب کو مل کر ٹھیک کرنے چاہئیں۔ ہمیں دہشت گردوں کے خلاف کامیابی ہو رہی ہے ۔افغانستان کے ساتھ تعلقات بھی بہتر ہو رہے ہیں ۔میڈیا کو مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ،خوامخواہ کسی کی پگڑی نہ اچھالی جائے۔ قرآن مجید میں ہے کہ ’’غیبت کرنا ایسا ہے جیسے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا‘‘ اور بہتان سے بھی منع کیا جاتا ہے۔ ہمیں غیبت اور بہتان تراشی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کراچی کے حالات ٹھیک کرنے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ جب تک کراچی میں مکمل امن نہیں ہوگا چین سے نہیں بیٹھیں گے ۔پیر کو کراچی جائوں گا بجلی بحران پر قابو پانے کے لئے کام کر رہے ہیں، میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تین ماہ یا چھ ماہ یا تین سال میں بجلی کے بحران پر قابو پا لیں گے تا ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی مدت میں بحران پر قابو پالیں۔ پٹرول کی قیمتیں کم ہونے سے بجلی سستی بن رہی ہے ۔ کوئلے کے کارخانوں سے بجلی مزید سستی ہوگی ،ایران سے گیس لے رہے ہیں۔ ترکمانستان سے بھی گیس لے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجیب الرحمن شامی نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے میں نے پرویز رشید سے کہہ دیا ہے کہ سی پی این ای کے عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کو حل کریں۔ وزیراعظم نے جرنلسٹس انڈومنٹ فنڈ کے لئے 5 کروڑ روپے کا اعلان کیا اور اسلام آباد میں سی پی این ای کے دفتر کے لئے قطعہ اراضی دینے کا وعدہ کیا۔ وزیراعظم نے پرائیڈ آف پرفارمنس کی رقم پانچ لاکھ سے بڑھا کر دس لاکھ کرنے کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے ایک اور صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی میں غیر ملکی ہاتھ کو مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان میں اس حوالے سے شواہد بھی ملے ہیں۔ سانحہ بلدیہ ٹائون کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ سانحہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو بھی قصور وار ہے اوراس کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہوا نقصان کے تقاضے پورے کئے جائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے صحافیوں کی قدر کرتا ہوں پاکستان کو ان دنوں بہت سارے چینلجز در پیش ہیں ملک کو مشکلات سے نکالنا تمام اداروں کا کام ہے ۔دھرنا دینے والوں میں سے ایک صاحب تو دھرنے ورنے کر کے ملک سے باہر چلے گئے سمجھ نہیں آتا دھرنوں کے کیا مقاصد تھے۔ پرویز مشرف کی حمایت کرنے والوں کا محاسبہ ضروری ہے۔ پاکستان کو مسائل سے نکالنے کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھے ہونا چاہیے۔ حکومت جانے کی باتیں کرنے والوں کا محاسبہ کیوں نہیں کیا گیا۔ اخباری تنظیمیں ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے والے عناصر کا محاسبہ کریں۔ ملک میں دہشت گرد وں کی مدد گار تنظیموں کے خلاف بھی ضرب عضب شروع ہونا چاہیے۔ افغانستان سے مل کر سرحد پر دہشت گردوں کا صفایا کریں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو ادھورا نہیں چھوڑیں گے۔ پاکستان آئین اور قانون سے ہٹنے کی بڑی قیمت ادا کر چکا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں فاتح ہو کر نکلیں گے۔ معیشت ٹھیک چلنا شروع ہو جائے تو دہشت گردی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں اڑھائی برس مکمل ہونے پر اتحادی حکومت کی دوسری ٹیم انتظام سنبھال لے گی۔ وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی حمایت کرنیوالی تنظیموں کیخلاف بھی ضرب عضب جیسے آپر یشن کی ضرورت ہے‘ مدارس کے نصاب کی تبدیلی کے حوالے سے کام ہو رہا ہے۔ میڈیا انسداد دہشت گردی کیلئے اپنائے گئے قومی لائحہ عمل پر عملدرآمد کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے ہر ادارے کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ پاکستان کو اس گرداب سے نکالنے کیلئے اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم جکڑے گئے تھے لیکن ہم نے میڈیا کو نہیں جکڑا۔ میڈیا کے اداروں میں ایسا نظام ہونا چاہیے جو آئین اور قانون کے خلاف چلنے والوں کا محاسبہ کرسکے۔ اگر کسی کو میں پسند نہیں تو اس کا بدلہ اسے ملک سے نہیں لینا چاہئے۔ نوازشریف نے کہا کہ میڈیا کو اپنے لئے ضابطہ اخلاق خود بنانا چاہئے کیوں کہ اگر حکومت ایسا کریگی تو پھر یہ شور مچایا جائیگا کہ حکومت میڈیا پر پابندی لگا رہی ہے۔ انکا یہ بھی کہنا تھا کہ مدارس کے نصاب کا کام بعض لوگوں کو سونپا گیا ہے اور وہ کام کررہے ہیں۔ آن لائن کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ کسی کو میرا وزیر اعظم بننا پسند نہیں تو اسکی سزا ملک کو نہ دی جائے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ قومی ایکشن پلان پر سب جماعتیں اکٹھی ہوئیں، افواج پاکستان بھی شامل ہوئی ہے میڈیا کو بھی اس میںشامل ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ بہتان بھی بہت بڑا گنا ہے، اس سے مراد ہے کہ جس بات کا کوئی وجود ہی نہ ہو اور بہتان لگایا جائے تو اللہ تعالی کے ہاں اسکی معافی نہیں۔ خواہاں مخواہ کسی کی پگڑی نہ اچھالی جائے اسکی سزا دنیا میں بھی ملے گی اور آخرت میں بھی ملے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں ولی نہیں اور نہ ہی نیک انسان ہوں، میں بھی عام انسان ہوں مجھے سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔ میں نے کئی سال پہلے اللہ تعالیٰ کے حضور معافی مانگی کہ اللہ تعالیٰ کسی انسان پر میں کبھی جھوٹ، غیبت اور بہتان نہیں لگائوں گا۔ کسی کا تماشا نہ لگایا جائے چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر حکومت پر کسی کو شک و شبہ ہے یا کسی معالات میں کرپشن یا چوری پکڑی جاتی ہے تو اس سے قبل حکومت کے پاس آئیں اور ساتھ بیٹھ کر تحقیق کریں اگر ہماری چوری پکڑی جائے تو سزا ضرور ملنی چاہیے لیکن ویسے شک و شہبات پر الزام نہیں لگنے چاہئیں،کسی کی پگڑی کو نہ اچھالا جائے۔