مشرف صادق ہیں نہ امین، پارلیمنٹ کے رکن نہیں بن سکتے: سندھ ہائیکورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + ایجنسیاں) غازی عبدالرشید قتل کیس میں سابق صدر پرویز مشرف کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کر دی گئی ہے۔ عدالت نے انہیں 26 فروری کو ہر صورت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالتی دائرہ اختیار سے متعلق پرویز مشرف کی درخواست پر وکلاء نے دلائل مکمل کر لئے۔ اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج واجد علی نے غازی عبدالرشید قتل کیس کی سماعت کی۔ پرویز مشرف کی جانب سے اختر شاہ ایڈووکیٹ مدعی کی طرف سے طارق اسد اور عبدالحق ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے۔ مشرف گذشتہ روز بھی عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ ایڈیشنل اینڈ سیشن جج اسلام آباد واجد علی خان کی عدالت میں عبدالرشید غازی اور ان کی والدہ کے مقدمہ قتل کی سماعت 26فروری تک ملتوی کردی گئی، عدالت نے پرویزمشرف کے وکیل اختر شاہ کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر پرویزمشرف کی جانب سے دائر درخواستوں پر مختصراََ جواب الجواب دیں، جس پر عدالت فیصلہ سنائے گی۔ مدعی مقدمہ نے دلائل مکمل کرلیئے ہیںدوران سماعت فریقین وکلا کے درمیان تنازعہ پر جج واجد علی خان نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ،عدالتی وقار کا خیال رکھیں یا عدالت سے باہر نکل جائیں۔ کیس کی سماعت ہوئی تو ہارون الرشید غازی کے وکیل طارق اسد نے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ لال مسجد آپریشن خلاف آئین و قانون تھا فوج نے پرویزمشرف کے حکم پر زبردستی سول انتظامیہ سے علاقے کا کنٹرول حاصل کرکے لال مسجد آپریشن کیا۔ 1998میں لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق کسی دہشت گرد کو بھی خلاف قانون قتل نہیں کیا جاسکتا اس لئے کہ آئین کے آرٹیکل 9کے تحت اسے بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے۔ ہارون الرشید غازی کے وکیل طارق اسد نے پرویزمشرف کی جانب سے دائر تین درخواستوں کے خلاف دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب ملک میں ملٹری کورٹس بن چکی ہیں اس لئے لوگ اب آرمی کے بارے میں بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔سپریم کورٹ کے 9رکنی بینچ نے 1998میں لیاقت حسین کیس میں 400 صفحات پر مشتمل فیصلے میںآئین کے آرٹیکل 245کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کو صرف بیرونی جارحیت یا امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لئے سول انتظامیہ کی درخواست پر سول انتظامیہ کی مدد کے لئے طلب کیا جاسکتا ہے، بیرونی جارحیت کی صورت میں فوج کسی کاروائی کرنے میں مکمل طور پر بااختیار ہوگی جبکہ امن و امان کنٹرول کرنے کے لئے جب سول انتظامیہ کی درخواست پر فوج کو طلب کیا جائے تو فوج سول انتظامیہ کے ماتحت رہ کر ذمہ داری ادا کرے گی۔لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن 1998میں لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کی روشنی میں خلاف آئین و قانون تھا۔چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سمیت کسی بھی سول انتظامیہ کے افسر نے فوج سے لال مسجد آپریشن کرنے کی استدعا نہیں کی تھی، پرویزمشرف نے دوران آپریشن لال مسجد والوں کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ سرنڈر کریں ورنہ مارے جائیں گے۔ بعدازاں کئی ٹی وی چینلز پر بھی پرویزمشرف نے اعتراف کیا کہ لال مسجد آپریشن کا فیصلہ میں نے ملکی مفاد میں کیا تھا اور مجھے اپنے فیصلے پر کوئی شرمندگی نہیں۔آئین کے آرٹیکل 245کے تحت آرمی کو لال مسجد آپریشن کا اختیار حاصل نہیں تھا‘‘۔ آرٹیکل 245کے تحت جب فوج سول انتظامیہ کی مدد کے لئے طلب کی جائے تو فوج قانون کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرسکتی،یہاں تک کہ اگر کوئی مسلح دہشت گرد خلاف قانون کسی دوسرے شہری کو قتل کرنے کے درپے ہو تو اس صورت میں بھی فوج کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ اس مسلح دہشت گرد کو خلاف قانون قتل کرے، اس لئے کہ آئین کے آرٹیکل 9کے تحت اس دہشت گرد کو بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق اس سے خلاف قانون نہیں لیا جا سکتا‘‘۔ ملزم کے وکیل کی جانب سے اس استدعا کے بعد فریقین کے وکلاء میں شدید تلخ کلامی ہوئی طارق اسد نے اخترشاہ سے کہا کہ میں سپریم کورٹ کے نوں رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں دلائل دے رہا ہوں،کیا آپ سپریم کورٹ سے اوپر ہیں۔ اس پر ایڈیشنل اینڈ سیشن جج واجد علی نے ریماکس دیئے کہ اگر آپ نے آپس میں الجھنا ہے تو عدالت سے باہر چلے جائیں۔ مدعی مقدمہ ہارون الرشید غازی کے ایک اور وکیل ملک عبدالحق نے اپنے دلائل میں کہا کہ پرویزمشرف کی جانب سے دائر تینوں درخواستیں خلاف قانون ہے۔پرویزمشرف غیرضروری درخواستیں دائر کرکے ٹرائل سے بچنا چاہتے ہیں۔عدالت علامہ عبدالرشید غازی قتل کیس میں 22مئی 2014کو اپنے ایک فیصلے میں قرا دے چکی ہے کہ پولیس چالان کو قبول کرنا عدالت پر لازم نہیں، پولیس اگر کسی ملزم کو چالان میں خانہ نمبر دو میں بھی رکھ دے تو بھی عدالت اسے طلب کرکے اس پر فرد جرم عائد کرسکتی ہے۔ لہٰذا عدالت اپنے سابقہ فیصلوں کی روشنی میں پرویزمشرف کی تینوں درخواستیں مسترد کر دے‘‘۔
کراچی (نوائے وقت رپورٹ) سندھ ہائیکورٹ نے سابق صدر پرویز مشرف کو پارلیمنٹ کی رکنیت کیلئے نااہل قرار دیدیا ہے۔ چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے پرویز مشرف کی پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے اختیارات کا غیرقانونی استعمال کیا، آئین توڑا، مشرف کو ان اقدامات کی روشنی میں باکردار نہیں کہا جا سکتا۔ پرویز مشرف آرٹیکل 62 ون ایف پر پورا نہیں اترتے، باکردار ہونا مجلس شوریٰ کا رکن بننے کیلئے ضروری ہے، سابق صدر نے 2007ء میں آئین توڑا ججوں کو گرفتار کیا، پرویز مشرف کے شرمناک اقدامات کی وجہ سے ملک کے وقار کو نقصان پہنچا۔بی بی سی کے مطابق سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پرویز مشرف صادق اور امین نہیں اس لئے وہ پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے اہل نہیں ہو سکتے۔ ہائی کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا ہے کہ پرویز مشرف مجلس شوریٰ کی رکنیت کے اہل نہیں، انہوں نے 2007ء میں آرمی چیف کی حیثیت سے ایمرجنسی نافذکی، آئین سے انحراف کرنے والے ججوں کو عبوری آئینی حکم کے تحت حلف لینے پر مجبور کیا پی سی او کا حلف لینے سے انکار پر ججوں کوگرفتار کیا، ان اقدامات کی وجہ سے عدلیہ اور وکلا برداری کودھچکا لگا، ان میں عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا۔ فل بنچ نے مشرف کے ان اقدامات کو شرمناک قرار دیا اور کہا کہ ان سے ملک کی عزت اور وقار کو نقصان پہنچا، یہ اقدامات بلاشبہ عدالتی نظام کو بدنام کرنے کے مترادف ہے جس سے ملک کے 18کروڑ عوام متاثر ہوئے۔ ملک کا قانون دفاعی اور سول اداروں پر یکساں لاگو ہوتا ہے، اختیارات کا استعمال قانون کے مطابق کیا جاتا ہے بندوق کے زور پر نہیں، عدالت نے قرار دیا کہ پرویز مشرف کے اقدامات ریاست پر قبضہ کرنے کے مترادف ہیں، ان اقدامات کی وجہ سے پرویز مشرف پر مقدمہ چلنا چاہئے۔