• news

شکست کا خوف اور غلط فیصلے

کرکٹ کے 11 ویں عالمی کپ ٹورنامنٹ کا آغاز 14 فروری سے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے جڑواں شہروں میں ہو چکا ہے تاہم پاکستان کا ٹورنامنٹ کا آغاز گذشتہ روز روایتی حریف بھارت کے خلاف میچ سے مایوس کن ہوا۔ ورلڈ کپ کی تاریخ میں پاکستان ٹیم کی بھارت کے ہاتھوں شکستوں کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ بھارت کے خلاف ایڈیلیڈ کے مقام پر دونوں ٹیموں کے درمیان چھٹے ٹاکرے سے قبل پوری قوم پر امید تھی کہ شاید اس مرتبہ ہمارے کھلاڑی اچھا پرفارم کرتے ہوئے نئی تاریخ رقم کرینگے لیکن کھیل کے تینوں شعبوں میں مایوس کن کارکردگی سے شائقین کرکٹ کے تمام خواب چکنا چور کر دیئے۔ بھارت کے ہاتھوں ہونے والی شکست پاکستانی قوم کو کسی طور پر برداشت نہیں ہے۔ ٹیم مینجمنٹ سمیت کپتان اور تمام کھلاڑی اس کے ذمہ دار ہیں۔ پاکستان ٹیم بھارت کے خلاف نان پروفیشنل انداز میں میدان میں اتری اور ٹیم میں ریگولر اوپنر کی کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا۔ محمد حفیظ کو آسٹریلیا سے واپس بلوا کر ان کی جگہ ناصر جمشید جن کا بھارت کے خلاف ٹریک ریکارڈ انتہائی شاندار رہا ہے انہیں میچ میں نہ کھلانا کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ یونس خان سے اننگز کا آغاز کرانے کا فیصلہ کس کا تھا پاکستان کرکٹ حلقوں کو اس بارے میں آگاہ کیا جانا ضروری ہے۔ عمر اکمل نے بیٹنگ اور وکٹ کیپنگ دونوں شعبوں میں قوم کو مایوس کیا۔ سرفراز احمد پر عمر اکمل کو ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کس کا تھا۔ اوپنگ، وکٹ کیپنگ کے شعبہ میں پروفیشنل کھلاڑیوں کے بغیر میدان میں اترنا پاکستان ٹیم کو انتہائی مہنگا پڑا۔ پاکستان ار بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے اہم میچ میں پاکستان ٹیم میدان میں اس جوش اور جذبے کے ساتھ میدان میں نہیں اتری کہ کہا جا سکے کہ کھلاڑی پرعزم ہو کر میدان میں اترئے تھے۔ بیٹنگ میں پاکستان ٹیم تو ہمیشہ ہی ناقابل بھروسہ رہی ہے ایسے میں اس کا تمام انحصار باولنگ کے شعبہ پر ہی تھا۔ محمد عرفان جنہیں میگا ایونٹ کے لیے گذشتہ سات آٹھ ماہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ بڑی احتیاط سے استعمال کر رہا تھا بھارت کے خلاف میچ میں وہ کسی طور پر پاکستان ٹیم کے کام نہیں آئے جس کا بھارتی بلے بازوں نے خوب فائدہ اٹھایا۔ محمد عرفان مکمل فٹ دکھائی نہیں دیئے۔ سہیل خان نے اس میچ میں پانچ شکار ضرور کیے لیکن ان میں وہ ردھم نظر نہیں آیا کہ پاکستان ٹیم کے اہم باولرز میں ان کا شمار کیا جانا شروع کر دیا جائے۔ وہاب ریاض جنہوں نے چار سال قبل بھارت کے خلاف موہالی کے میدان میں پانچ شکار کیے تھے ان کی باولنگ میں وہ کاٹ دکھائی نہیں دی تاہم ان کے کوٹے کے آخری دو اوورز پورے ردھم میں دکھائی دیئے لیکن اس سے قبل بھارتی ٹیم کے ویرات کوہلی، شیکھر دھون اورسریش رائنا بورڈ پر بڑا ٹوٹل بنانے میں اپنا کردار ادا کر چکے تھے۔ یاسر شاہ اور شاہد خان آفریدی بھی باولنگ میں بری طرح ناکام رہے۔ بھارت کے خلاف میچ میں جہاں باولنگ کے شعبہ کا درست استعمال نہیں کیا گیا وہیں پر بیٹنگ کے شعبہ میں غلطیاں کی گئیں۔ یونس خان جنہیں ناصر جمشید پر ترجیح دیکر ٹیم میں بطور اوپنر کھلایا گیا ناکام ثابت ہوئے۔ اگر یونس خان جیسا کھلاڑی اہم میچ میں سکور نہیں کرئے گا تو جونیئر کھلاڑیوں سے کون پوچھے گا۔ احمد شہزاد کو لمبا عرصہ ہو گیا ہے ٹیم کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب وہ سیٹ ہو گئے اور ایک لمبا سکور کر سکتے تھے ان کے غلط شاٹ نے پاکستان ٹیم کو مشکلات سے دوچار کر دیا۔ حارث سہیل ابھی نوجوان کھلاڑی ہے اس نے وکٹ پر ٹھہرنے کی کوشش ضرور کی لیکن بھارتی تجربہ اور پریشر کے سامنے بے بس دکھائی دیئے۔ عمر اکمل نے کامران اکمل کی اہم میچوں میں وکٹوں کے پیچھے کیچ چھوڑنے کی روات کو برقرار رکھا اس کے ساتھ ساتھ بیٹنگ کے شعبہ میں باہر جاتی ہوئی بال کو کھیلنے کی کوشش میں کیچ آوٹ ہو گئے۔ عمر اکمل کا شمار دنیا کے ان چند بلے بازوں میں کیا جاتا ہے جو جدید کرکٹ میں کسی بھی وقت میچ کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں لیکن انہوں نے قوم کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ صہیب مقصود جنہیں چند میچوں کی کارکردگی پر ہیرو بنایا جا رہا ہے وہ بھی بھارت کے خلاف ناکام رہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان ٹیم مینجمنٹ اور کھلاڑی بھارت کے ہاتھوں شکست کے خوف سے درست فیصلے کرنے میں ناکام رہے۔ اگلے میچوں میں پاکستان ٹیم کو جیت کے لیے شکست کے خوف سے باہر نکل کر چیمپیئن والا کھیل پیش کرنا ہوگا۔ میگا ایونٹ میں کوئی ٹیم نامکمل تیاری کے ساتھ نہیں آئی۔

ای پیپر-دی نیشن