جناب پرویز رشید ”کُوچہ شاعری “میں؟
آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی والدہ محترمہ کے اِنتقال کے بعدانہیں لاہور میں سپرد ِخاک کردِیا گیا ہے۔ نمازِ جنازہ میں صدر ممنُون حسین ¾ وزیرِ اعظم نواز شریف ¾ اعلیٰ فوجی اور سوِل حُکام اور مُلک کے اہم شخصیات نے شرکت کی۔ جنرل راحیل شریف کی والدہ ¾ محترمہ نے بیٹے کو مخاطب کرتے ہُوئے در اصل پاک فوج اور قوم کو نصیحت کی تھی کہ” صبر سے کام لو ¾ جذباتی نہ بنو ¾ لڑائی جھگڑے نہ کرو ¾ ماں باپ کی خدمت کرو اور مُلک کے لئے ہر وقت تیار رہو!“
”اِک متاعِ دِیدہ تر!“
3 دسمبر 1991 ءمیں میری والدہ کا اِنتقال ہُوا۔ اُن کے بارے میں میرا کالم 9 دسمبر 1991 ءکو ”نوائے وقت“ میں شائع ہُوا۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب میرے گھر تعزیت کے لئے تشریف لائے۔ نامور صحافی (مرحوم) میر جمیل اُلرحمن اور برادرم شاہد رشد اُن کے ساتھ تھے۔ دُعائے مغفرفت کے بعد جنابِ نظامی نے کہا کہ”اثر چوہان صاحب!۔ مجھے آپ کا کالم پڑھ کر اپنی ماں یاد آ گئیں!“۔ مَیں نے عرض کِیا ”سَر! ساری دیسی مائیں آپ کی اور میری ماں جیسی ہی ہوتی ہیں“۔مصوّرِ پاکستان علّامہ اقبال کی ”دیسی ماں“کا اِنتقال ہُوا تو انہوں نے ”والدئہ مرحومہ کی یاد میں “ کے عُنوان سے ایک طویل نظم لِکھی جِس کے سارے اشعار ہی ہر مُسلمان کی طرف سے اپنی ماں سے محبت ¾ عقِیدت اور پھروفات کے بعد محرومی کے جذبات سے معمُور تھے۔ صِرف ایک شعر نقل کررہا ہُوں
”قافلے میں غیرِ فریادِ دَرا کچھ بھی نہیں
اِک متاعِ دیدئہ تر کے سِوا کچھ بھی نہیں“
اِس ”متاعِ دِیدئہ تر“ کی روشنی میں ہی ماﺅں کے بیٹے مادرِ وطن کی عِزّت اور حُرمت پر قُربان ہو جاتے ہیں۔
”ایم کیو ایم اور سِندھ کا مفاد؟
قومی اسمبلی میں قائدِ حِزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ نے کہا کہ”ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت سِندھ کے مفاد میںہے“۔ اِس سے پہلے شاہ صاحب نے کہا تھا کہ”ایم کیو ایم تو حکومت میں آتی جاتی رہتی ہے اور پیپلز پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتااور پاکستان پیپلز پارٹی جناب ذوالفقار علی بھٹو ¾ محترمہ بے نظیر بھٹو اور چیئرمین بلاول بھٹو کی قیادت میں عوام کی خدمت جاری رکھے گی“۔اور چیئرمین بلاول بھٹو نے جب یہ نعرہ لگایا کہ ”مرسُوں ¾ مرسُوں سِندھ نہ ڈیسُوں“ تو یہی سمجھا گیا کہ اب پاکستان پیپلزپارٹی کو ”چاروں صُوبوں کی زنجیر بے نظیر ¾ بے نظیر “ کے نعرے کی ضرورت نہیں رہی ۔پھر نوبت یہاں تک پہنچی کہ چیئرمین بلاول بھٹو نے اعلان کِیا کہ ”اَنکل الطاف مَیں لندن میں آپ کا جِینا حرام کردُوں گا“۔ چیئرمین بلاول بھٹو ابھی تک لندن میں ہیں۔اُنہوں نے ”اَنکل الطاف کا جِینا حرام کِیا یا نہیں ؟“اُس کا عِلم تو جنابِ الطاف حسین کو ہی ہوگا لیکن ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ”U-Turn “ سے ثابت ہُوا کہ سب کچھ ”سِندھ کے مفاد میں “ہُوا ایم کیو ایم کے اپنے تحفظات پر پاکستان پیپلز پارٹی سے رُوٹھنے اور جنابِ زرداری کے حُکم پر پیپلز پارٹی کے اُنہیں منانے کے بارے میں” شاعرِ سیاست “کہتے ہیں
”ناراضی میںلہو گرمانا ¾ اچھا لگتا ہے
اُس کا رُوٹھنا ¾ میرا منانا اچھا لگتا ہے
مجھ کو اُس کا سیاسی گھرانا اچھا لگتا ہے
بھائی الطاف کا رونا ¾ گانا اچھا لگتا ہے“
دیکھنا یہ ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹوزرداری ”اَنکل الطاف “۔ کا لندن میں” جِینا حلال“ کرکے کب وطن واپس آتے ہیں؟ایک پنجابی مٹیار نے دُور دیس گئے اپنے محبوب کی یاد میں کہا تھا کہ”مَیں اِتھّے تے ڈھولا پربت“اوراپنے ڈھولے کے اِنتظار میں دوسری پنجابی مٹیار نے کہا تھا
”گلّاں دِل دِیاں دِل وِچّ رہ گئیِّاں ¾ شاماں پَے گئیّاں
کدوں آویں گا دِلاں دیاجانِیاں“
پاکستان میں مقیم ایم کیو ایم کے قائدِین اکثر دعویٰ کرتے ہیں کہ ”الطاف بھائی کروڑوں عوام کے لِیڈر ہیں“۔ اِسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے قائدِین بھی چیئرمین بلاول کو کم از کم لاکھوں عوام کا لِیڈر تو سمجھتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ چیئرمین بلاول وطن واپس آ کر اپنے والدِ محترم اور پارٹی کے قائدِین اور کارکنوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں؟۔
جناب سراج اُلحق کا مشورہ؟
مجھے امیر جماعتِ اسلامی جناب سراج اُلحق اِس لئے بھی بہت اچھے لگتے ہیں کہ موصُوف حُکمرانوں اور حِزبِ اِختلاف کو ” سِیدھا راستہ“ دکھانے کے لئے کوئی نہ کوئی مُفت مشورہ دیتے رہتے ہیں۔ اُن کا تازہ ترین مشورہ یہ ہے کہ”وزیرِ اعظم نواز شریف بھارتی وزیرِ اعظم کی چالوں میں نہ آئیں!“۔دراصل جنابِ سراج اُلحق نے مودی جی کا ”چال چلن“ دیکھ کر ہی ہمارے وزیرِ اعظم کو یہ مشورہ دِیا ہے لیکن قِبلہ سراج اُلحق صاحب!۔بھارت سے دوستی اور تجارت کا عَلم بلند کر کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے بھی توسیاسی بساط پر چال چلنے کی کوشش کی تھی۔ اُستاد محمد ابراہیم ذوق نے تو قمار بازی کی بساط پر اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہُوئے کہا تھا کہ
”ہم سا بھی اِس بساط پہ کم ہوگا بد قمار
جو چال ہم چلے وہ بہت ہی ¾ بُری چلے“
لیکن شطرنجی بچھونا(بساط)اور سیاسی اور سفارتی بساط میں بہت فرق ہے ؟۔ اِس بارے میں ”مجاہدِ تحریکِ پاکستان“ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن سے پہلے کے حُکمرانوں کو ہمیشہ سمجھایاکہ وہ”پاکستان میں بھارتی شردھالوﺅں (عقِیدت مندوں) کی چالوں سے ہوشیار رہیں“۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ ”اپنی چالوں میں پھنسانے کے لئے بھارتی چالبازوں نے پاکستان کے حُکمرانوں کو پھنسانے میں اِنتہائی مہارت کا ثبوت دِیا ہے۔اِس کے باوجودوزیرِ اعظم کو جناب سراج اُلحق کا مشورہ تاریخ میں یاد رہے گا۔
تھیلوں سے نکلنے والے شیر؟
عام انتخابات میں دھاندلی اور ووٹوں کے تھیلے کُھلنے کے بارے میں جناب عمران خان کو چیلنج کرتے ہُوئے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشیدنے کہا کہ
”تُم جِتنے تھیلے کھولو گے ¾ ہر تھیلے سے شیر نِکلے گا“
مِصرعے کا مفہوم تو اچھا ہے لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ ”جُگت بازی “ کے میدان میں اُترنے کے بعد کُوچہ¿ شاعری میں کُودنے سے پہلے پرویز رشید صاحب عِلم ِ عروض پڑھتے اورعِلمِ عروض کے ماہر کسی مُعتبر شاعر کے سامنے زانوئے تلمند بھی طے کرتے ۔ عِلمِ عروض کے حساب سے جناب پرویز رشید کایہ مِصرع”وزن سے گِرگیا ہے“۔ کوئی مِصرع یا شعراگر وزن سے گِر جائے یا کوئی سیاستدان عوام کی نظروں سے تو اُس کی قدر نہیں رہتی۔ کاش جناب پرویز رشید اپنے سینئر ساتھی جناب مشاہد اُللہ خان سے ہی ”اِصلاح“ لے لیتے ؟۔ مِصرع یُوں ہونا چاہیے تھا
”تُم جِتنے تھیلے کھولو گے ¾ ہر تھیلے سے شیر ہی نِکلے گا“
فقط ایک لفظ”ہی“ کے اضافے سے مِصرع ”با وزن“ ہو گیا ہے۔ جناب پرویز رشید اگر واقعی شاعر ہوتے تو پنجاب سے لوہا ¾ تانبا ¾ چاندی اور سونے کا خزانہ برآمد ہونے کے بعد یہ مِصرع بھی کہتے کہ
”ہم جہاں سے مٹّی کھودیں گے تو دیسی گھی بھی نِکلے گا“
اورآخری بات کہ”بِلّی تھیلے سے باہر آ گئی/ نِکل آئی“کی مِثل تو عام ہے لیکن ”تھیلے سے شیر کا نِکلنا عجیب سا لگتا ہے؟۔ یہ درُست ہے کہ بِلّی کو شیر کی خالہ کہا جاتا ہے لیکن جب کسی تھیلے سے بِلّی برآمد ہُوئی تو اُس کے ساتھ اُس کا” بھانجا “ کبھی برآمد نہیں ہُوا۔شیر یا تو جنگل میں ہوتا ہے یا چِڑیا گھر میں اور چِڑیا گھر میں بھی اُسے پنجرے میں رکھا جاتا ہے ¾ تھیلے میں نہیں!۔