پاکستانی کشتی تباہ کرنے کا میں نے حکم دیا‘ بھارتی کوسٹ گارڈ افسر کا اعتراف‘ پھر مکر گیا
نئی دہلی (نیٹ نیوز+ نوائے وقت نیوز+ ایجنسیاں) بھارتی میڈیا نے خود ہی بھارت کا چہرہ اور اس کا جھوٹ بے نقاب کر دیا ہے۔ بھارتی کوسٹ گارڈز کے ایک سینئر افسر نے پاکستانی کشتی کو پہلے تباہ کرنے کا اعتراف کیا۔ میڈیا پر شور مچنے اور اعلیٰ سطح پر کھنچائی ہونے پر خود ہی مُکر گیا۔ بھارتی کوسٹ گارڈ کے نائب انسپکٹر جنرل اور شمالی مغربی خطے کے چیف آف سٹاف بی کے لوشالی کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں انہیں یہ دعویٰ کرتے دیکھا جا سکتا ہے کہ 31 دسمبر کی رات مبینہ طور پر پاکستان کی طرف سے بھارتی سمندری حدود میں داخل ہونے والی کشتی کو ’اڑانے کا حکم‘ خود انہوں نے دیا تھا۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے بعد وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا تھا کہ کشتی پر دہشت گرد سوار تھے، اس میں دھماکہ خیز مواد لدا ہوا تھا جب کوسٹ گارڈز نے کشتی کو تلاشی کے لئے روکنے کی کوشش کی تو اس میں سوار افرد نے اس میں آگ لگا دی تھی۔ کوسٹ گارڈ کے افسر کے بیان کے بعد وزیر دفاع موہن پریکر نے بنگلور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے موقف پر قائم ہیں، اگر کسی افسر نے کوئی غلط بیان دیا ہے تو انکوائری کے بعد اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔۔۔ یہ معاملہ یہیں ختم ہو جاتا ہے۔‘ ادھر لوشالی نے بھی ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تقریر کو غلط انداز میں پیش کیا گیا وہ یہ حکم نہیں دے سکتے تھے کیونکہ آپریشنل کمان ان کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ تاہم ویڈیو میں انہیں یہ کہتے ہوئے صاف سنا جا سکتا ہے کہ ’مجھے امید ہے کہ آپ کو 31 دسمبر کی رات یاد ہوگی۔ میں وہاں موجود تھا، میں نے اس کشتی کو اڑنے کا حکم دیا تھا۔ میں نے کہا کشتی کو اڑا دو، ہم انہیں بریانی نہیں کھلانا چاہتے۔‘ انڈین ایکسپریس نے حکومت کے موقف پر سوال اٹھاتے ہوئے 2 جنوری کو ہی یہ خبر دی تھی کہ اس کشتی میں معمولی سمگلرز سوار تھے۔ پاکستان نے بھی اس دعوے کو مسترد کیا تھا کہ کشتی اس کے کسی ساحل سے روانہ ہوئی تھی۔ بعد میں وزیر دفاع نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کشتی میں ’مشتبہ‘ دہشت گرد سوار تھے اور اگر وہ معمولی سمگلرز ہوتے تو ’خود کشی‘ کیوں کرتے۔ مگرکوشالی کا دعویٰ وزارت دفاع کے موقف سے متضاد ہے اس کے بعد کانگریس کے سینئر لیڈر منیش تیواری نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے وہ بتائے کہ اس رات کیا ہوا تھا۔ کشتی کن حالات میں تباہ ہوئی، اس پر سوار لوگ کون تھے، بھارتی انٹیلی جنس سے کیا معلومات حاصل ہوئیں خود بحریہ اس آپریشن میں کیوں شامل نہیں تھی، آپ کو بیچ سمندر میں ہی کیوں روکنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے بہت سے سوال میڈیا میں اٹھائے گئے تھے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا گیا تھا۔ وزارت دفاع کے مطابق اس کشتی میں چار افراد سوار تھے جنہیں بچایا نہیں جا سکاک کیونکہ آگ لگائے جانے کے کچھ دیر بعد دھماکہ ہوا اور کشتی غرقاب ہو گئی۔ کوسٹ گارڈ کی جانب سے جلتی ہوئی کشتی کی تصاویر جاری کی گئی تھیں۔ اس وقت اخبارات نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں شائع کی تھیں کہ یہ لشکر طیبہ کی جانب سے ایک اور بڑا حملہ کرنے کی کوشش تھی۔ بی کے لوشالی نے انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے اس بیان کی تردید کر تے ہوئے کہا کہ بحیرہ عرب میں پاکستانی ماہی گیروں کی کشتی کو اڑانے کا حکم نہیں دیا تھا۔ بھارتی اخبار کے مطابق کوسٹ گارڈ اور دیگر افسروں کے سامنے ایک بوٹ کی افتتاحی تقریب میں انچارج برائے مرمت و پیداوار کے لئے ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ سدھیر ساہنی اور سورت میں تعینات ڈپٹی کمانڈنٹ جی سیٹھی کی موجودگی میں بات کرتے ہوئے بی کے لوشالی نے کہاکہ آپ کو 31 دسمبر کی وہ رات یاد ہے جب ہم نے پاکستانی ماہی گیروں کی کشتی کو دھماکے سے اڑایا تھا۔ میں اس وقت گاندھی نگر میں تھا اور میں نے ہی یہ حکم دیا تھا کہ کشتی کو اڑا دو۔ ہم انہیں بریانی نہیں کھلانا چاہتے۔لوشالی نے کہا کہ مجھے لکھی ہوئی تقریر دی گئی تھی، لیکن مین اپنے دل کی بات کہوں گا۔اس خبر کے شائع ہوتے ہی بی کے لوشالی کی جانب سے جاری کئے گئے تردیدی بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ ہم ملک دشمن عناصر کو بریانی نہیں کھلانا چاہتے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جانا چاہئے۔ اس حوالے سے حکم دینے کے مجاز نہیں تھے، بلکہ اس کی نگرانی شمال مغربی ریجن کے کوسٹ گارڈ کمانڈر کر رہے تھے۔ انہوں نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا وہ اپنی بات پر قائم ہیں کہ کوسٹ گارڈ نے نہیں بلکہ ماہی گیروں نے اپنی کشتی کو خود دھماکے سے اڑایا۔ دوسری جانب بھارتی اخبار نے اپنے ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ کی بیان سے پھرنے کی کوشش ناکام بنا دی۔ بھارتی اخبار نے پی کے لوشالی کی تقریر جاری کر دی ہے جس میں لوشالی کشتی تباہ کرنے کا حکم دینے کا اعتراف کر رہے ہیں۔ بھارتی اخبارات نے نمایاں طور پر ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ کا بیان شائع کیا جس میں 31دسمبر 2014ء کو مبینہ پاکستانی کشتی تباہ کرنے کا حکم دینے کا اعتراف شامل تھا لیکن بھارتی کوسٹ گارڈز کے ڈی آئی جی پاکستانی کشتی کو تباہ کرنے کے دعوے سے مُکر گئے اور کہا کہ وہ آپریشن سے پوری طرح آگاہ ہی نہیں تھے۔ بھارتی حکومت اور اس کے ذمہ دار ادارے کس طرح اپنی باتوں سے پلٹ جاتے ہیں اس کی تازہ مثال بھارتی کوسٹ گارڈ کے ڈی آئی جی کی قلابازی ہے۔ مگر اخبار نے اس حوالے سے ان کی تقریر جاری کر دی جس میں اعتراف کو سنا جا سکتا ہے۔کانگرس کے ترجمان اجے میکن نے بھارتی حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ معاملہ انتہائی حساس ہے اسے سنجیدہ لیا جائے، حقائق عوام کے سامنے لائیں جائیں۔ بھارتی وزیر دفاع پرریکر اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے ایسا نہیں کیا جانا چاہئے، اس معاملے سے اسکی نوعیت کے مطابق نمٹا جائے۔ متنازعات بیانات دشمن ممالک کی جانب سے آپ کے خلاف استعمال ہوئے ہیں، مودی حکومت ایسے بیانات سے خود کو پاکستان کے سامنے گنہگار ثابت کر رہی ہے۔ حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔
نئی دہلی (رائٹر) بھارتی حکومت اس حوالے سے وضاحت کرنے کے بارے میں شدید دبائو کا شکار ہے کہ پاکستانی کشتی کی تباہی کو تباہ کرنے کا سبب کیا تھا۔ یہ پیشرفت اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان اور بھارت کے سیکرٹری خارجہ کے درمیان اگلے ماہ مذاکرات متوقع ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی جانب سے ویڈیو جاری ہونے پر اپوزیشن نے اس بارے میں حکومت سے وضاحت طلب کرلی ہے۔ بھارتی کانگرس کے رہنما منیش تیواری نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیر دفاع منوہر پاریکار اس بات کی تصدیق کریں کہ گزشتہ سال تباہ کی جانے والی پاکستانی کشتی میں سوار افراد دہشت گرد تھے یا نہیں۔ صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے منیش تیواری نے کہا کہ اگر کشتی میں سوار افراد دہشت گرد تھے تو یقینا یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان افراد کے دہشت گرد ہونے کی صورت میں بھی ہمیں اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی کہ آخر کیا وجہ تھی کہ ہم ان دہشت گردوں کو موقع پر ہلاک نہیں کرپائے۔ادھر بھارتی وزارت دفاع نے ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ کے پاکستان کی کشتی تباہ کرنے کے اعترافی بیان کو بڑھک قرار دیا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ حکومت موزوں وقت پر معاملے پر بیان دے گی۔ 2015میں کانگرس نے حکومت سے سچ بولنے کا کہا تھا۔ لوشالی اپنی بڑھک سے مصیبت میں پڑ سکتا ہے۔ بھارتی وزارت دفاع نے ڈی آئی جی کوسٹ گارڈ سے وضاحت طلب کر لی ہے۔