گلگت بلتستان میں نئے گورنر کا تنازعہ
گلگت بلتستان کا علاقہ1947ء میں قیام پاکستان کے وقت مقبوضہ کشمیر کا حصہ تھا۔ پوری ریاست جموں کشمیر گلگت بلتستان اور لداخ کے صوبوں پر مشتمل تھی۔ 1948ء میں یہاں کے عوام نے ڈوگرا راج کے خلاف بغاوت کر کے غلامی کا طوق اپنی گردن سے اتار پھینکا اور پاکستان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اسی دوران آزاد کشمیر حکومت بھی قائم ہو گئی۔ کچھ عرصہ بعد معاہدہ کراچی کے تحت، ریاست جموں و کشمیر کے سپریم ہیڈ چودھری غلام عباس نے ریاست گلگت و بلتستان کا انتظام و انصرام حکومت پاکستان کے سپرد کر دیا کیونکہ اس وقت کی ریاست آزاد کشمیر اس پوزیشن میں نہیں تھی کہ وہ اتنے بڑے علاقے کو سنبھال سکتی ، اس لئے یہ علاقے براہ راست حکومت پاکستان کے کنٹرول میں چلا گیا۔ اس کے تمام معاملات اسلام آباد سے چلائے جانے لگے، تاہم اس کے باوجود اس کی متنازعہ حیثیت یعنی ریاست جموں کشمیر کے علاقے کے طور پر اسکی شناخت برقرار رکھی گئی۔ اس حیثیت سے یہ علاقہ فاٹا اور غیر علاقہ کے قبائلی علاقوں کی طرح پسماندگی کا شکار رہا۔ البتہ اس علاقے کو سبسڈی کے نام پر کافی رعایتیں حاصل رہیں، جواب تک حاصل ہیں۔ جس کے جواب میں یہاں کے جنگلات اور سرکاری فنڈز کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ بارہا یہاں کے عوام نے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کی مگر اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ علاقہ پولو کے میدان سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اور وہ یہاں من مرضی کے مطابق حکومت چلاتی رہے باالفاظ دیگر گھوڑے دوڑاتی رہی اور میچ سے لطف اندوز ہوتی رہی آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے کئی بار خلوص نیت سے یا پھر حکومت پاکستان پر دبائو ڈالنے کیلئے یہ علاقہ واپس آزاد کشمیر کے سپرد کرنے اور اسے آزاد کشمیر اسمبلی میں نشستیں دے کر وہاں الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا مگر اس پر بھی کسی نے کان نہ دھرا۔ تا ہم اندر خانہ اسے کشمیر سے علیحدہ کر کے مکمل صوبہ کا درجہ دے کر پاکستان میں شامل کرنے پر کام ہوتا رہا۔ مگر عالمی برادری کے سامنے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کمزور ہونے کے خوف سے اس پر عمل نہ ہو سکا۔ مشرف دور سے مسئلہ کشمیر پر لاتعلقی کی کیفیت نے اس رد عمل کا خوف بھی ختم کر دیا۔ اور پیپلز پارٹی نے جو ہزار سال کشمیر کے لئے جنگ لڑنے کے دعوے کرتے پھرتی تھی۔ اپنے قائد کی خواہش کو پورا کیا جسے وہ زندگی میں پورا نہ کر سکے۔ بھٹو مرحوم کی پوری کوشش تھی کہ آزاد کشمیر کو صوبہ بنا کر پاکستان میں شامل کیا جائے۔ مگر مسلم کانفرنس لبریشن لیگ اور کشمیریوں کے ردعمل کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر سکے۔ پھر انہی کی جماعت کے دور میں 2009ء میں گلگت بلتستان میں نئے قواعد و ضوابط کے تحت مستقل بند وبستی نظام قائم ہوا اسے صوبہ بنا کر یہاں اور الیکشن کرائے گئے جس میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی اور مہدی شاہ یہاں کے پہلے وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے جبکہ گورنر پیر کرم شاہ کو بنایا گیا۔ اس پر کشمیریوں کی طرف سے متنازعہ علاقہ کے نام پر کشمیر کا حصہ ہونے کے نام پر کافی لے دے ہوئی مگر خود آزاد کشمیر کی کیا حیثیت ہے کہ وہ کچھ کرتی اگرچہ وہاں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت ہی تھی۔ قصہ مختصر یوں یہ قصہ تمام ہوا اور گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ قرار دیا گیا۔
اب وہاں نئے گورنر کی تقرری کے حوالے سے جو محاذ آرائی جاری ہے اس نے وہاں سیاسی ابتری پیدا کر دی ہے۔ وہاں کے عوام آزاد کشمیر کے عوام کی نسبت بہت زیادہ قوم پرست ہیں اور وہاں شیعہ مسلک کا مضبوط اتحاد بھی ہے جو الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کا پلیٹ فارم سے واضح کامیابی حاصل کر چکا ہے۔ اب نئے گورنر کے تقرر کا شوشہ چھوڑ کر مسلم لیگ نے اپنے لئے ایک اور ہنگامہ خیز میدان چن لیا ہے۔ نجانے یہ کون سے مشورہ ساز ہیں جو مسلم لیگ ن کے رہنما وزیراعظم میاں نواز شریف کو جان بوجھ کر ایسے معاملات میں پھنساتے ہیں جہاں سے چھٹکارہ پانا مشکل ہو جاتا ہے۔ پہلے ہی پاکستان کے سیاسی منظرنامہ میں انتشار کم تھا کہ اب نئے صوبے میں بھی اس آگ کو ہَوا دی جا رہی ہے جو دنیا کی نظر میں متنازعہ علاقہ بھی ہے اور مسلکی بنیادوں پر بھی وہاں فرقہ واریت کی آگ بھڑکنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ان حالات میں وزارت امور کشمیر کے وزیر برجیس طاہر کو گلگت بلتستان کا گورنر بنا کر خدا جانے وزیر اعظم میاں نواز شریف کونسا معرکہ سر کرنا چاہتے ہیں۔ وہاں کے عوام تو کھلم کھلا غیر مقامی شخص کو گورنر بنانا پر تیار نہیں اور مسلسل مظاہرے کر رہے ہیں اسی وجہ سے نئے گورنر کی تقریب حلف برداری بھی مظاہروں کے خوف سے گلگت بلتستان ہائوس اسلام آباد کے مجوزہ مقام کی بجائے، وزارت امور کشمیر کے دفتر میں ہوئی۔ اب میاں نواز شریف یہ جانتے ہوں گے کہ ان کو نئے گورنر برجیس طاہر میں ایسے کیا کمال نظر آیا کہ پہلے انہیں امور کشمیر کی وزارت دی اور اب گلگت بلتستان کی گورنری، کشمیر سے منسلک تجزیہ کار جانتے ہیں ان کا ان ان دونوں کے حوالے سے سوائے بتلائی گئی چندسرکاری معلومات کے علاوہ شاید ہی کوئی تجربہ ہو، ہاں البتہ شریف خاندان سے وفاداری کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر حکومتی انتظامی عہدوں کی اسطرح کی بندر بانٹ زیب نہیں دیتی اگر واقعی وہاں اصلاح احوال مطلوب ہے تو کیا وہاں سے ہی کوئی پکا مسلم لیگی نہیں مل سکا۔ جس کے سر گورنری کا تاج سجایا جاتا، ضروری ہے کہ وہاں بدامنی پھیلائی جائے۔ تحریک انصاف تو ایک نئے خدشے کا اظہار کر رہی ہے ان کے بقول آنے والے انتخابات میں نئے گورنر کی مدد سے زبردست دھاندلی کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بس اس جملے میں معنی کا ایک جہاں آباد ہے۔ جو آنے والے دور کی تصویر دکھا رہا ہے۔