دہشت گرد قوم کو تقسیم نہیں کر سکتے
دہشت گروںنے لگاتار امام بارگاہوں کونشانہ بنایا ہے، ان کی کوشش ہے کہ پاکستان میں سنی اور شیعہ کی تفریق پیدا کی جائے اور دونوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر گلہ گلی محلے محلے فساد کھڑا کیا جائے۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے اس سازش کو بھانپتے ہوئے بر وقت انتباہ کیا ہے کہ دہشت گرد اپنے مذموم ارادوں میںکامیاب نہیں ہو سکتے، پاکستانی قوم یک جہتی کے جذبوں سے سرشار ہے۔
دوسری طرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی واضح اعلان کیا ہے کہ فوج کا آپریشن سب کے خلاف ہے، اس میں کوئی پسندیدہ یا غیر پسندیدہ نہیں، بلا تفریق کاروائی کی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم کا بیان بھی حوصلہ افزا ہے کہ قومی ایکشن پلان کے تحت سخت فیصلے کرناہوں گے تاکہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔وزیر اعظم بے حد متحرک اور سرگرم ہیں، انہوںنے کراچی میں ایک اعلی سطحی اجلاس منعقد کیا اور پھرکوئٹہ جا کرحالات کا جائزہ لیا۔
حکومت اور فوج قدم سے قدم ملا کر چلنے کا تاثر دے رہی ہے۔ کراچی اور کوئٹہ کے اعلی سطحی اجلاسوںمیں حکومت، فوج ، سیاسی قیادت اور پولیس کی شرکت تو نظرا ٓئی ہے مگر افسر شاہی کے چہرے نظر نہیں آئے ، وہ پس پردہ بیٹھی ہو تو اور بات ہے ورنہ ہر صوبے کے چیف سیکرٹری اور داخلہ سیکرٹری کو ہر اجلاس میں شریک کیا جائے ا ور انہیں بھی سامنے والی نشستوںپر جگہ دی جائے کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوںنے ان اجلاسوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانا ہے یا مکھی پہ مکھی مار کر کاروائی ڈالنی ہے، عوام کو ان کے چہرے بھی اچھی طرح دکھائے جائیں تاکہ ان کی باڈی لینگوئج کو پڑھا جا سکے اور انکی نیتوں کا اندازہ کیا جا سکے۔ اس وقت سارا بوجھ فوج پر ڈال دیا گیا ہے، فوجی عدالتیں تشکیل پا گئیں تو عدلیہ بھی فارغ ہو جائے گی، کیا مضائقہ ہے کہ اگر اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اس صوبے کے چیف جسٹس کو بھی مدعو کیا جائے تا کہ وہ اپنی زبان سے عدلیہ کی ان مشکلات کا تذکرہ کر سکیں جو دہشت گردوں کے خلاف تیز رفتار فیصلوںمیں رکاوٹ بنتی ہیں۔میں جو بار بار کہتا ہوں کہ اپیکس کمیٹیوں کا دائرہ مشاور ت وسیع کیا جائے تو میرا مقصد یہ ہے کہ فوج کو اکیلے میدان میں نہ جھونکا جائے، پوری قوم ساتھ ہو گی تو نتیجہ خیز اقدامات کئے جا سکیں گے۔اور اگر سارا بوجھ فوج کے کندھوں پر لاد دیا گیا تو کل کو ناکامی کی صورت میں فوج کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا کہ یہ ملک کے تحفظ میں ناکام رہی، دنیا کے کسی دفاعی نظام میں اندرون ملک شورش برپا ہونے کی صورت میں تنہا فوج نتائج دکھانے سے قاصر رہتی ہے، فوج کی ساری تربیت بیرونی دشمن کے خلاف دفاع پر مرکوز ہوتی ہے۔پینسٹھ کی لڑائی میں بھارت جیسی تین گنا بڑی طاقت کے مقابلے میںپاک فوج نے کامیابی سے دفاع کیا مگر اکہتر میں فوج کو اندرون ملک ا ور بیرون ملک دو محاذو ں پر لڑنا پڑا جس میں کامیابی کا امکان صفر تھا، پورے مشرقی پاکستان کی آبادی ہماری فوج کے خلاف تھی۔ آج فاٹا میں فوج کو اس لئے کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ وہاں کی آبادی کو نیوٹرل کر دیا گیا تھا مگر دشمن نے چالاکی یہ کی ہے کہ وہ پورے ملک میں پھیل گیا ہے ، اور اسے یہ کامیابی صرف اس لئے ملی ہے کہ قومی صفوںمیں ایسے میر جعفر اور میر صادق موجود ہیں جو ان کے لئے سہولت کار بنتے ہیں، انہیں گھروں ، ہوٹلوں میں ٹھہراتے ہیں ۔اور افسر شاہی میں ایسے عناصر موجود ہیں جو ان سے اغماض برتتے ہیں۔ جب کراچی کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سربراہ جناب زرداری خود موجود تھے اور وہیں اس تجویز کو منظور کیا گیا کہ پولیس اور افسر شاہی میں تبادلوں اور تقرریوں کے لئے اپیکس کمیٹیوں سے مشاورت لازمی ہے تو اس پر زرداری صاحب کو کوئی تحفظات تھے تو وہیں اجلاس کے اندر ان کا ذکر کرتے ، یہ کیا ہوا کہ خورشید شاہ کو سامنے کر دیا ہے جوعوا م میں کھڑے ہو کر اس فیصلے پر اعتراض داغ رہے ہیں، اس کامطلب تو صاف یہی ہے کہ پولیس اور افسرشاہی میں واقعی چہیتے موجود ہیںجن کا تحفظ کیا جارہا ہے۔لاہور کے پولیس لائن دھماکے میں یہ خبریں چلیں کہ ڈی آئی جی کی روانگی کی اطلاع اندر سے دہشت گردوں کو دی گئی۔ ایسی صورت حال میں ہم دہشت گردی کا سر کیسے کچل سکیں گے۔پورا میڈیا سراپا سوال ہے کہ پولیس لائن کا علاقہ انتہائی حساس حدود اربعے میں گھر اہوا ہے، ایک طرف ریڈیو اور ٹی وی، ساتھ ہی پریس کلب اور امریکی قونصل خانہ ا ور بے آباد گورنر ہائوس، سامنے ریلوے ہیڈ کوارٹر اور بچوںکا اسکول بالکل متصل، بے چاری مائیں وہاں بھی ننگے پائوں اپنے بچوں کی تلاش میں بھاگی پھرتی تھیں۔ ایسے حساس علاقے میںانتہائی چوکسی کے باوجود کئی کلو بارود لے کر کوئی شخص گھس جائے تو لاہور کی بد قسمتی پر رونا آتا ہے کہ یہاں کوئی حکومت نام کی شے ہے یا نہیں، دہشت گردی کے خلاف وزیر اعلی کی روزانہ تین کالمی خبر تو چھپتی ہے مگر ایسی ٹیبل اسٹوریز سے دہشت گردی کاخاتمہ ممکن ہوتا تو پولیس لائن کا سانحہ رونما نہ ہوتا۔وزیر اعلی نے خود بھی محسوس کیا ہو گا کہ دگر گوں حالات تیز رفتار اقدامات کا تقاضہ کرتے ہیں۔
اب رہا یہ قصہ کہ دہشت گرد قوم کو مذہبی بنیادوںپر تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔وہ بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں، ان کے حملے کبھی فوج کے خلاف ہوتے ہیں، کبھی مزاروںکے خلاف، اس سے سنی دیو بندی تفریق کا تائثر دینا مقصود ہے، کبھی پیپلز پارٹی اور اے این پی کے خلاف، اس سے یہ احساس کہ ن لیگ، جماعت اسلامی اور تحریک ا نصاف کے لئے ان کے دل میںنرم گوشہ ہے مگر بھائیو! جب وہ عوام کو ٹارگٹ کرتے ہیں تو کیا دیوبندی، کیا شیعہ، کیا سنی،کیا وہابی، ہر شخص نشانہ بنتا ہے، ہر سیاسی پارٹی کا ووٹر نشانہ بنتا ہے، آرمی اسکول کے بچے تو کسی پارٹی میں نہیں تھے، وہ تو پھولوں کا خون بھی کرتا ہے، اس لئے دہشت گردوں کی ایک ہی اسٹریٹجی ہے کہ وہ پاکستانیوں کا قتل عام کرے۔ وہ مسلم یا غیر مسلم کی بھی تمیز بھی نہیں کرتا۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حکمران محفوظ ہیں مگر پنڈ آرائیاں میںجو مقابلہ ہوا وہ ان دہشت گردوں کے خلاف تھا جو ممکنہ طور پر جاتی امراکو نشانہ بنانے کے لئے چھپے ہوئے تھے مگر ملٹری انٹیلی جنس کے دلیر اور بے خوف اہل کاروں اور افسروںنے ان کی گردن دبوچ لی۔اس لئے ان کے نشانے سے کوئی محفوظ نہیں ہے ۔اور انکے خلاف ڈٹ جاناہر شخص کی ذمے داری بنتی ہے۔
حالیہ دنوں میں دہشت گردی سے بہر حال یہی تائثر سامنے آیا کہ دہشت گرد ایک فرقے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں مگر معاشرے میں بھائی چارے کی مثالی کیفیت کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ فوج کے ترجمان نے صحیح کہا ہے کہ قوم کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا، اس وقت قوم متحد ہے۔ اور اگر کوئی کسر باقی ہے تو وزیر اعظم شہر شہر اپیکس کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کر کے باقی ماندہ خامیوں پر قابو پانے میںکامیاب ہو جائیں گے۔