عمرانؔ ٗ ڈارؔ ۔ ’حرِیفانہ خَط و کِتابت‘‘
مِرزا غالبؔ اپنے محبوب سے خط و کتابت کِیا کرتے تھے کہ اُس دَور میں ٹیلی فون اور ’’Skype‘‘ ایجاد نہیں ہُوئے تھے۔ خط و کتابت کو ’’آدھی مُلاقات‘‘ کہا جاتا تھا/ ہے۔ شاعر، ادِیب اور کالم نگار حسن نثار نے کئی سال پہلے سعودی عرب سے اپنی بیگم سعِیدہ ہاشمی کو جو خط لِکھے تھے انہوں نے اُن سب کو کتابی شکل میں ’’آدھی مُلاقات‘‘ کے نام سے شائع کِیا تھا۔ آج کل خط بذریعہ ڈاک ٗ کوریئر سروس اور ای میل بھیجنے کا رواج ہے۔ مِرزا غالب ؔ کے اِس شعر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے خطوط ’’قاصد‘‘ کے ذریعے بھجوایا کرتے تھے اور اُن کا محبوب بھی۔ مِرزا غالبؔ نے کہا ؎
قاصد کے آتے آتے خط اِک اور لِکھ رکھّوں!
مَیں جانتا ہُوں کیا وہ لِکھیں گے جواب میں؟
مِرزا غالب ؔجانتے تھے کے اُن کا محبوب ’’ہاں‘‘ میں جواب نہیں دے گا۔ لیکن فارسی کے نامور شاعر جناب حافظؔ شیرازی کے اپنے محبوب سے تعلقات بہت اچھے تھے اور جب انہوں نے محبوب کے قاصد کی آمد پر (مَیں لڈّوُ وَنڈّاں) کی کیفیت میں اپنی خُوشی میں اپنے سارے شریکے کو شریک کرتے ہُوئے کہا ؎
آں پَیکِ نامور کہ رسِید از دِیارِ دوست
آوُرد حِرزِ جاں ز خطِ مُشکبارِ دوست
یعنی وہ نامور قاصد جو دوست کے وطن سے آیا ہے وہ دوست کا خُوشبُو دار خط لایا ہے جو میرے لئے حِرزِ جاں (جان کا تعوِیذ) ہے۔ مُمکن ہے جنابِ حافظؔ شیرازی اپنے دوست کے خط کو جان کا تعوِیذ بنا کر اپنے گلے میں ڈال لیتے ہوں لیکن پاکستان تحریکِ اِنصاف کے چیئرمین جناب عمران خان اور وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کے درمیان تو کئی معاملات میں ’’حرِِیفانہ خط و کتابت‘‘ کا سلسلہ جاری ہے۔ اُن کی خط و کتابت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے اپنے زورِ بیان سے ایک دوسرے کے گلے پڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِس طرح کی کیفیت کو ’’دو دو ہاتھ کرنا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اُستاد راسخؔ نے کہا تھا ؎
’’اندھیرے میں بڑا موقع ہے دو دو ہاتھ کرنے کا‘‘
لیکن جناب عمران خان اور جناب اسحاق ڈار دِن دیہاڑے ایک دوسرے پر شیروں کی طرح دھاڑتے ہیں حالانکہ ’’شیر‘‘ صِرف جنابِ ڈار کی نون لیگ کا انتخابی نشان ہے۔ ’’عاشقانہ خط و کتابت‘‘ میں جب کبھی کسی فریق کا خط پکڑا جاتا تھا/ ہے تو اُس سے خط لِکھنے والے کی ۔’’ملامت‘‘۔ ہوتی تھی / ہے لیکن سیاست میں ’’حرِیفانہ خط و کتابت‘‘ کا مقصد ہی ایک دوسرے کی ’’ملامت‘‘ کرنا اور عوام کو ایک دوسرے کی ’’ملامت‘‘ پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔ جِس طرح ’’ملامتی صُوفیوں‘‘ کا ایک طبقہ تھا/ ہے اُسی طرح ’’ملامتی سیاستدانوں‘‘ کا بھی ایک طبقہ ہے اور کینیڈین ’’شیخ اُلاسلام‘‘ علّامہ طاہر اُلقادری ’’درجہ اوّل‘‘ کے ملامتی سیاستدان ہیں۔ وہ ’’اعضاء کی شاعری‘‘ کرتے ہُوئے اپنے حرِیفوں کی ’’ملامت‘‘ کرتے ہیں اور اگر کوئی اُن کی ملامت کرے تو طَیش میں آ جاتے ہیں۔ گذشتہ دِنوں جناب عمران خان نے جناب اسحاق ڈار کو خط لِکھ کر اُن پر ٹیکسوں سے بچنے کے لئے 40 لاکھ ڈالر دُبئی مُنتقل کرنے کا الزام لگایا تھا۔ ’’جوابِ آں غزل‘‘ کے طور پر جنابِ ڈار نے بھی خط لِکھ کر جناب عمران خان کے خط کا جواب دے دِیا ہے حالانکہ جناب عمران خان کا یہ دعویٰ نہیں تھا کہ ؎
’’مَیں جانتا ہُوں کیا وہ لِکھّیں گے جواب میں!‘‘
جنابِ ڈار نے جنابِ عمران خان کو اپنے خط میں لِکھا کہ ’’مجھ پر ٹیکس چوری کے الزامات غلط ہیں۔ میرے بیٹے نے دُبئی میں اپنا پیشہ ورانہ کیریئر شروع کِیا ہے۔ مَیں نے اُسے40 لاکھ ڈالر اُدھار/ قرض دِیا تھا اور اُس نے مجھے وہ رقم بنک کے ذریعے واپس کردی اور اِس رقم کی واپسی سے پاکستان کے ’’زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ بھی ہُوا ہے۔‘‘ خط میں ڈار صاحب نے یہ بھی لِکھا کہ ’’مَیں نے اپنے بیٹے کو کچھ رقم بطور تُحفہ بھی دی تھی۔‘‘ کِتنی رقم تُحفہ میں دی تھی؟ جنابِ ڈار نے نہیں بتایا۔ فارسی زبان میں کہتے ہیں کہ ’’حسابِ دوستاں در دِل‘‘ لیکن پنجابی زبان کا اَکھان ہے کہ ’’حساب مانواں دِھیاں دا‘‘ زبانِ اُردُو میں کہتے ہیں کہ ’’باپ بڑا نہ بیٹا ٗ بھیّا سب سے بڑا رُوپیِّا۔‘‘
معلوم ہُوا کہ ڈار صاحب ’’اصُول پرست انسان‘‘ ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو 40 لاکھ ڈالر مُفت میں نہیں دیئے بلکہ اُسے بطور اُدھار دیئے تاکہ اُس میں خُود اعتمادی پیدا ہو اور وہ خُود 40 لاکھ یا اُس سے زیادہ رقم کمانا سِیکھے۔ کہاوت ہے کہ ’’اُدھار محبت کی قینچی ہے۔‘‘ جنابِ ڈار کے ’’کمائو پُوت‘‘ نے اپنے والدِ محترم کا اُدھار واپس کر کے اُسے غلط ثابت کر دِیا۔ شاعر نے شاید اِسی طرح کے ایک بیٹے کو مخاطب کر کے کہا تھا ؎
تیرے جیہے پُتّ جمّن مانواں
کِدھرے کِدھرے کوئی!
جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے اُدھار لے کر واپس نہیں کرتا تو اُسے ’’اُدھار مار‘‘ کہا جاتا ہے اور اُدھار دینے والا اُدھار لینے والے سے کہتا ہے کہ ’’کیا تُم باپ کا مال سمجھ کر میری رقم ہڑپ کر گئے ہو؟‘‘ اگر جنابِ اسحاق ڈار کا بیٹا40 لاکھ ڈالر اُدھار لے کر ہڑپ کر لیتا تو وہ اُس کے ’’باپ کا مال‘‘ تھا خواہ جنابِ ڈار اُسے ’’اُدھار مار‘‘ کہتے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ’’مادرِ وطن‘‘ کے وہ بیٹے (زیادہ تر سیاستدان) حکومتی اداروں یا بنکوں سے بڑی بڑی رقوم اُدھار لے کر ’’باپ کا مال‘‘ سمجھ کر ہڑپ کر گئے ہیں اُن کے لئے میری تجویز ہے کہ جناب اسحاق ڈار ’’اُدھار چُکائُو‘‘ اپنے بیٹے کو دُبئی سے بُلائیں اور لاہور قذافی سٹیڈیم یا ناصر باغ میں وزیراعظم نواز شریف یا میاں شہباز شریف کی صدارت میں ایک تقریب مُنعقد کریں۔ اُس تقریب میں سرکاری خرچ پر پاکستان بھر کی ’’اُدھار مار‘‘ شخصیات کو مدعُو کریں اور سٹیج پر تقریب کے صدر کے ساتھ بیٹھے ہُوئے اپنے بیٹے کا ہاتھ بلند کر کے کہیںکہ ’’یہ ہے میرا سعادت مند اور مُحبّ وطن بیٹا‘‘ جِس نے اپنے باپ سے 40 لاکھ ڈالر اُدھار لئے اور واپس کر کے مُلکی زرِمبادلہ میں اضافہ کر دِیا۔‘‘ اِس اعلان کے بعد شاید ’’اُدھار مار ملامتی طبقہ‘‘ کے لوگوں کو کچھ حیا آئے اور خُوش ہو کر صدرِ مجلس کو بھی جناب حیدر علی آتشؔ کا یہ شعر ترنّم سے پڑھنے کا موقع مِلے کہ ؎
’’وہ بے حجاب ہُوئے تو مجھے حیا آئی‘‘
وطنِ عزیز میں ’’فیڈرل شریعت کورٹ‘‘ ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی اور ہر مسلک کے مُفتیان صاحبان بھی۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ اُن سب کی طرف سے ایک ’’اجتماعی فتویٰ‘‘ جاری ہو کہ ’’جو لوگ بڑے بڑے اُدھار/ قرضے لے کر ہڑپ کر چکے ہیں اور جنہوں نے مُلک اور قوم کی دولت لُوٹ کر بیرونی بنکوں میں جمع کرا دی ہے وہ ’’معاشی دہشت گرد‘‘ ہیں اور اُن کے خلاف بھی ’’آپریشن ضرب العَضب‘‘ کی ضرورت ہے۔‘‘
ایک اور تجویز یہ کہ جناب اسحاق ڈار کی طرح مسلم لیگ (ن) کے جس کسی وفاق اور پنجاب کے وزیر یا مُشیر نے دُبئی، لندن یا نیویارک میں مُقِیم اپنے بیٹوں کو 20 لاکھ 40 لاکھ یا 80 لاکھ ڈالر اُدھار دیئے اور اُنہوں نے واپس بھی کر دیئے اُن کے نام بھی منظرِعام پر لائے جائیں۔ بے شک اِس دَوران جنابِ عمران خان اور جنابِ اسحاق ڈار ؎
’’دامن کو اُس کے آج حرِیفانہ کھَینچئِے!‘‘
کے پروگرام کے مطابق اپنی ’’حرِیفانہ خط و کتابت ‘‘ بھی جاری رکھیں۔