• news

اسحاق ڈار نے بیٹے کو قرضہ دیا اور چودھری نثار

اسحاق ڈار نے عمران خان کے خط کا جواب دے دیا ہے کہ 40 لاکھ ڈالر کا قرضہ میں نے اپنے بیٹے کو دیا تھا۔ اس نے واپس بھی کر دیا ہے۔ 40 لاکھ ڈالر کا قرضہ بھی ہوتا ہے؟ 40 لاکھ روپے کا قرضہ بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ بچوں کو قرضہ دینے کا رواج ڈار صاحبان کے گھر میں ہوتا ہو گا۔ ہمارے گھروں میں کبھی اپنے بچوں کو قرضہ نہیں دیا جاتا۔ یہ کاروباری گھرانے کا انتہائی ماڈل ہے جو ڈار فیملی میں ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو قرضہ نہیں دیتا۔ ظاہر ہے یہ قرض حسنہ ہوتا ہو گا۔ کوئی پتہ نہیں کہ اس طرح کاروبار کرنے والے باپ بیٹے کے درمیان بھی قرضے پر سود بھی لیا جاتا ہو گا۔ قرض حسنہ کی تعریف کرنے کے لئے پوچھا گیا تو بتایا گیا کہ یہ قرض واپس مانگا جائے تو مقروض آگے سے ہنسنا شروع کر دے تو اسے قرض حسنہ کہتے ہیں۔
قرضہ لینے کا تجربہ تو بہت ہے اسحاق ڈار کو کہ انہیں اسحاق ڈالر کہنا شروع کر دیا گیا ہے مگر قرض دینے کا علم اب ہوا ہے۔ وہ قرض دیتے بھی ہیں تو اپنوں کو بلکہ بیٹوں کو۔ یہ بھی پتہ کرائیں کہ اتنی ذاتی باتوں کا پتہ عمران خان کو کیسے چل جاتا ہے۔ کئی ذاتی باتیں عمران خان کے متعلق بھی ہوتی ہیں بلکہ بہت ذاتی ہوتی ہیں تو ان کا پتہ اسحاق ڈار کو نہیں چلتا۔ پرویز رشید کو کچھ کچھ پتہ چل جاتا ہے مگر ان کی ادھوری اور غیرموثر باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں بھی پوری طرح پتہ نہیں چلتا۔
چودھری نثار علی خان بہت دلیر آدمی ہیں۔ وہ کھری کھری بات کرنے کے عادی ہیں۔ وہ خود بھی حکومت میں ذمہ داری والے منصب پر فائز ہیں۔ اس کے باوجود وہ ایسی بات بھی کہہ جاتے ہیں جس کا اشارہ ان کی اپنی طرف بھی ہوتا ہے اور پوری حکومت کی طرف ہوتا ہے۔ نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ اگر نواز شریف ان کے مشوروں پر عمل کریں تو ایسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے جو انہیں پریشان کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو سال کی حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں۔ ایک تو آدمی ہے جو اتنی صداقت سے اتنی جرات سے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کرتا ہے۔ ہم عوامی توقعات کو پورا نہیں کر سکے۔ کوئی دوسرا وزیر ایسا ہے جو اس طرح کی کھلی بات کر سکتا ہے۔ اگر ایسے چند وزیر اور بھی ہوتے تو معاملہ کبھی اتنا نہ بگڑتا۔ یہ بھی کہا چودھری صاحب نے کہ اپوزیشن صرف بہتان تراشی کرتی ہے جبکہ اس کا کام حکومت سے تعاون کرنا بھی ہے۔ مگر چودھری صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ ایسا تعاون بھی نہیں ہونا چاہئے جو پیپلز پارٹی حکومتی پارٹی ن لیگ سے کر رہی ہے۔ جینوئن اپوزیشن ہوتی تو جمہوری صورتحال بہتر ہوتی۔ ہماری جمہوری حکومتوں نے جینوئن اپوزیشن کو موقع ہی نہیں دیا کہ وہ ایسا کام کر سکے جو جمہوریت کے لئے عزت کا باعث ہو۔
یہ تو کہا چودھری نثار نے کہ ہمارے سامنے پہاڑ جیسے مسائل ہیں۔ کئی کئی کمزوریاں ہماری حکومتی کارکردگی میں ہوں گی مگر ہمارا قبلہ درست ہے۔ یہ بات چودھری نثار کے خیالات تک تو درست ہے مگر ابھی قبلہ درست کرنا باقی ہے۔ موجودہ حکومت کچھ کام کرتی ہے اور پھر پریشان ہوتی ہے اور اس کام سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں ان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب تک حکومت اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب ہے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے چودھری نثار کی جس میں انہوں نے عوام کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اتنی مشکلات کے باوجود وہ ہر چیلنج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ وہ سیاستدانوں کو اچھی طرح جان گئے ہیں۔ وہ جھوٹ اور سچ کے بارے میں بھی خبردار ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ کس نے اثاثے بنائے ہیں۔ یہ اشارہ اپنی پارٹی کے کس کس آدمی کی طرف ہے چودھری نے کہا کہ عوام صاف دیکھ رہے ہیں کہ کون پارٹیاں بدلتا ہے۔ یہ بات بھی چودھری صاحب نے کس کے بارے میں کہی ہے؟ سیاسی لوگ آج کل یا تو پی ٹی آئی میں جا رہے ہیں یا انہیں حکومتی پارٹی مسلم لیگ ن میں لایا جا رہا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ جنرل مشرف کے بہت قریب سیاستدان امیر مقام خود ن لیگ میں آئے ہیں یا انہیں لایا گیا ہے۔ وہ الیکشن میں ہار گئے تھے مگر اس کے باوجود انہیں کابینہ میں مشیر کے طور پر لے لیا گیا ہے۔ وہ چودھری نثار کے ساتھ بیٹھتے ہوں گے۔ ماروی میمن طارق عظیم اور جنرل مشرف کے وزیر قانون زاہد حامد صاحب بھی آئے۔ ان کی یہ بات اچھی لگی کہ جب عدالت نے انہیں غداری کیس میں فریق بنایا تو انہوں نے استعفیٰ دے دیا مگر شاہد خاقان عباسی کو اس کے باوجود بھی احساس نہ ہوا کہ لوگوں نے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت نے زاہد حامد سے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن