ایک گھریلو شادی میں چند خوشگوار لمحے
میری بہت پیاری بیٹی قندیل کی شادی ایک غیرسیاسی اجتماع کی صورت میں منعقد ہوئی۔ وہاں کوئی سیاسی شخصیت نہ تھی اور یہ خوش آئند ہے۔ کچھ سرکاری لوگوں کے آنے کا خطرہ تھا مگر وہ بھی ٹل گیا۔ ورنہ مصنوعی سکیورٹی کی بھرمار سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ سکیورٹی تو تھی مگر ایسی نہ تھی۔ کچھ جرنیلوں کے آنے کا امکان بھی تھا۔ کچھ جرنیل آئے بھی مگر وہ جرنیل نہیں لگ رہے تھے۔ ایک تو وہ وردی میں نہ تھے اور پھر ان میں کوئی ایسا رویہ نہ تھا کہ وہ وی وی آئی پی لگتے۔ وہ وی آئی پی کی طرح بھی نہ لگ رہے تھے۔
مگر وہاں دو آدمی بہت مصروف تھے۔ فلمی دنیا کے ٹیکنیکل ہیرو سید نور اور سیاسی دنیا کے قلندر مرد مولا بخش چانڈیو۔ وہ دونوں دوست پہلے ہیں۔ چانڈیو صاحب جب وزیر تھے تو بھی وزیر نہیں لگتے تھے۔ پہلی ہی ملاقات میں جو ممتاز اور منفرد ترین افسانہ نگار اور ادبی شخصیت دوست مظہرالاسلام کے دفتر میں ہوئی چانڈیو صاحب کے ساتھ بھی دوستی ہو گئی۔ پھر ان کی طرف سے دو چار مرتبہ فون آئے۔ مظہر تب نیشنل بک فائونڈیشن کے چیئرمین تھے۔ تب کتاب اور خواب کا فرق نہ رہا تھا۔ چانڈیو صاحب کے ہاتھوں میں بھی کتاب تھی۔ کسی وزیر کے ہاتھ میں کتاب کا ہونا ان کے ساتھ دوستی کا دیباچہ بن گیا۔ یہ کتاب ہم دونوں لکھ رہے ہیں۔ وہ خود بھی ایک کتاب کے مصنف ہیں۔ سید نور بہت کمال کے آدمی ہیں۔ فلمی دنیا میں ایک عجیب دلآویزی پیدا کی۔ ایسی فلمیں بنائیں کہ انہوں نے پسندیدگی کے ریکارڈ قائم کر دیے۔ ایک دوست کا تبصرہ تھا کہ لگتا ہے کوئی انڈین فلم پاکستان میں لگ گئی ہے۔ یہ تعریف بالواسطہ ہے۔ ورنہ سید نور بہت پاکستانی فنکار ہیں اور وہ پاکستان میں انڈین فلموں کی نمائش کے سخت خلاف ہیں۔ وہ بہت اہل اور اہل دل ڈائریکٹر ہیں مگر خواتین و حضرات انہیں فلمسٹار ہیرو کی طرح چاہتے ہیں۔
میں اپنے دوست اور بڑے بھائی محمد اکبر نیازی کے داماد بریگیڈئر امجد ملک کے لئے حیران ہوں کہ کیسے کیسے لوگ اس کے دوست ہیں۔ اس کے ساتھ محبت میں دوستی کی سانجھ بھی شامل ہو گئی ہے۔ وہ سفید کپڑوں میں بھی جرنیل لگتے ہیں جرنیل بن نہیں سکے۔ بریگیڈئر امجد ملک بہت سرگرم، مستعد اور فوجی علوم کے ماہر ہیں۔ اس باکمال فوجی افسر کی بیٹی کی شادی پر فوجی شادی کا گماں بھی نہ تھا۔ میرے خیال میں ہر شادی ایسی سادہ اور شاندار ہونا چاہئے۔ آسودگی سادگی میں ہے ورنہ جس شادی میں حکومتی اہلکار آئے ہوں تو ظاہر سکیورٹی معاملات سے سارے معاملات گڑ بڑ ہو جاتے ہیں۔
شادیوں کے اجتماعات کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ سب خاندان والے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ دوست یار بھی آ جاتے ہیں۔ ہر گیٹ ٹو گیدر کا فائدہ ہوتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر بہت مزہ آتا ہے۔ اپنی اپنی روایات اور ثقافت کے مطابق ناچ گانا بھی ہوتا ہے۔ اس دکھ بھری زندگی میں خوشی کے کچھ لمحات میسر آ جاتے ہیں۔ میں خود بھی گھریلو شادیوں میں دھمال ڈالتا رہا ہوں۔ حیرت ہے کہ ایسے موقعوں پر عورتیں اور مرد ایک ساتھ ناچتے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوتی کہ وہ مرد ہیں اور یہاں عورتیں بھی ہیں۔ عورتیں بھی ایسے ہی جذبے میں ہوتی ہیں۔ یہ مخلوط معاشرے کی آئیڈیل شکل ہے۔
قندیل میری نواسی ہے۔ وہ میرے بڑے بھائی کی نواسی ہے مگر ہماری قبائلی روایات میں رشتے ایک دائرے میں ہوتے ہیں۔ اور یہ دائرہ جتنا بھی بڑا ہو جائے مربوط رہتا ہے اور مضبوط رہتا ہے۔ میں ایک بار پی ٹی وی کے ایک پروگرام کے لئے کوئٹہ گیا تھا۔ بریگیڈائر امجد وہاں سٹاف کالج میں تھا۔ ہوٹل کی بجائے میں نے رات گھر میں گزاری۔ قندیل جو تین چار سال کی تھی میرے ساتھ ساتھ رہی۔ اس کی محبت میں جو معصومیت تھی مجھے کبھی نہیں بھولے گی۔ آج بھی اس شخصیت میں وہی معصومیت اور محبت ہے۔ میں اسے آج بھی کوئٹے والی قندیل کہتا ہوں۔ وہ میرے بھائی اپنے نانا کو بڑے ابو جی کہتی ہے۔ وہ مجھے فون کرے تو کہتی ہے چھوٹے ابو جی میں کوئٹے والی قندیل بول رہی ہوں۔ وہ دلہن بنی ہوئی سٹیج پر بھی کوئٹے والی قندیل بنی بیٹھی تھی۔ اس قندیل کی روشنی چاروں طرف محبت بھرے نور کی طرح بکھر رہی تھی، نکھر رہی تھی۔ نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ نور اور روشنی میں فرق ہے؟
اس شادی میں مجھے جس منظر نے بے شمار متاثر کیا وہ قندیل کی پیاری پیاری اس کے جیسی سہیلیوں کا رویہ تھا۔ رخصتی کے وقت وہ سب اداس کھڑی تھیں مگر جب قندیل اور اس کے دولہا میاں سکواڈرن لیڈر عمر فاروق کی گاڑی آہوں اور سسکیوں کے درمیان چل پڑی تو ایک خوبصورت نعرے کی طرح محبت بھری آواز گونجی۔ یہ اس کی سہیلیوں کی بیک زبان آواز تھی جیسے یہ ایک آواز تھی۔ وی لو یو۔ ہم تم سے محبت کرتی ہیں۔ خدا حافظ قندیل۔ گڈ بائی قندیل۔ وہ سب بچیاں روتی ہوئی اور روتے ہوئے بھی مسکراتی ہوئی مجھے اچھی لگیں۔ بہت اچھی لگیں۔ ان میں سے کائنات نام کی بچی کو بریگیڈائر امجد نے بلا کے گلے سے لگایا۔ مجھ سے بھی قندیل کی ایک بہت پیاری سہیلی نازش نے قندیل کے حوالے سے باتیں کیں۔ فارینہ مریم، ماریہ عروشا ایمل ردا کائنات زارا نمرا مانو اریج اور جن کا نام مجھے بھول گئے ہیں وہ، مجھے معاف کر دیں۔ اور اریج تو قندیل کی چھوٹی بہن کا نام ہے۔ بہن سہیلی بھی ہوتی ہے۔ سہیلی تو ماں بھی ہوتی ہے۔ قندیل کی ماں سعدیہ تو اپنی بیٹیوں کی سہیلی ہے۔ وہ بڑی اور سچی خاتون ہے کہ اس کا شوہر اس کی تعریف کرتا ہے۔ اور یہ کم کم ہوتا ہے۔
قندیل کا شوہر عمر فاروق برات میں یوں گھوم پھر رہا تھا جیسے وہ خود ایک براتی ہو۔ وہ یہ پتہ بھی نہیں چلنے دے رہا تھا کہ دولہا والوں کی طرف سے ہے یا دلہن والوں کی طرف سے ہے۔ عمر فاروق یہاں کسی کا دوست تھا کسی کا عزیز تھا۔ وہ میری اہلیہ رفعت خانم کے ساتھ جس احترام سے ملا۔ میں حیران رہ گیا۔ میں نے سوچا کہ اس سے کہوں کہ میں نے اس میں ایسی بات 40 برسوں میں نہیں دیکھی۔ تم نے پہلی ملاقات میں کیا دیکھ لیا ہے؟
آخر میں سرائیکی کے یہ شعر قندیل کے لئے لکھ رہا ہوں۔ اس سے پہلے بھی یہ شعر کئی بار لکھ چکا ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ عورت کی دو خواہشیں ہوتی ہیں دلہن بننا اور ماں بننا۔ وہ دلہن کے روپ میں اپنے آپ کو جہاں دیگر کی ملکہ سمجھتی ہے۔ جہاں دیگر کے بارے میں صرف وہی کچھ نہ کچھ جانتی ہے۔ دولہا میاں کچھ نہیں سمجھتے۔
میں کیچ دی ملکہ تھیساں جد پرنیساں
میں نال پھلاں دے تلیساں جد پرنیساں
میں اپنے جہان کی ملکہ بنوں گی جب میری شادی ہو گی۔ جب میری شادی ہو گی تو پھولوں کے ساتھ تولی جائوں گی۔