• news

جنرل (ر) مشرف کے خلاف ’’جعلی مقدمات؟‘‘

 دہشت گرد طالبان میں سے ’’محبّ وطن طالبان‘‘ برآمد کرنے والے وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان نے 21 فروری کو واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’پڑوسی مُلک نے پاکستان میں دہشت گردی کی آگ بھڑکائی۔‘‘
’’ آگ لگانا اور بھڑکانا؟‘‘
چودھری نثار علی خان نے پاکستان میں آگ بھڑکانے والے ’’پڑوسی مُلک ‘‘ بھارت کا نام کیوں نہیں لِیا؟ جِس کے  سُر میں سُر مِلا کر ’’امن کی آشا دیوی‘‘ کے بھجن گائے جاتے ہیں؟ کیا  وزیرِ داخلہ  پاکستان میں دہشت گردی کی آگ لگانے والوں کو ’’رعایتی نمبر‘‘ دے کر اُنہیں تھرڈ ڈویژن میں پاس کرنا چاہتے ہیں؟ اصل جُرم تو دہشت گردی کی آگ لگانے والوں کا ہے جنہوں نے بھارت کو آگ بھڑکانے کا  موقع دِیا۔ کیا آپ کے پاس بھارت کے خلاف بھی  ’’آپریشن ضرب اُلعضب کرنے کا ساز و سامان موجود ہے؟‘‘
’’ ملالہ یوسف زئی کی حفاظت کریں‘‘
نوبل پرائز پانے والی 17 سالہ ملالہ یوسف زئی نے سانحۂ پشاور میں شہید ہونے والے بچوں کے ساتھ "Citizens For Democracy" کی طرف سے منعقدہ تقریبِ یک جہتی  سے  بذریعہ ویڈیو لِنک خطاب کرتے ہوئے پھر امن کی باتیں کیں۔ اس تقریب سے  نوبل پرائز یافتہ بھارت کے ’’گاندھی وادی‘‘ کیلاش ستیارتھی نے بھی خطاب کیا۔ اکتوبر 2014ء میں  نوبل پرائز مِلنے پر ملالہ یوسف زئی نے کہا تھا کہ ’’مجھے اور کیلاش ستیارتھی جی کو امن کا نوبل پرائز پاکستان او ر بھارت میں محبت پیدا کرنے کے لئے دِیا گیا ہے۔‘‘ اِس  سے پہلے ’’ملالہ جی‘‘ نے کہا تھا کہ ’’مجھے اور کیلاش ستیارتھی جی کو نوبل پرائز دئیے جانے کی تقریب میں ’’ فروغِ امن کے لئے‘‘ پاکستان اور بھارت کے وُزرائے اعظم کو بھی شرکت کرنا چاہیے۔‘‘ مَیں نے اُس پر اپنے کالم میں ’’ملالہ جی‘‘ کے اِس بیان کو ’’چھوٹا مُنہ بڑی بات‘‘ قرار دِیا تھا۔ میری ملالہ یوسف زئی کے والد جناب ضیاالدّین یوسف زئی سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اپنی بیٹی (پاکستان کی بیٹی) کی حفاظت کریں!
 "Salute To Shahbaz Sharif"
خبر کے مطابق ’’لاہور میں خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف نے خواتین ارکانِ اسمبلی سے طویل خطاب کِیا اور بہت سے اشعار بھی سُنائے تو خواتین ارکان اسمبلی نے کہا کہ ’’انسدادِ دہشت گردی فورس تشکیل دے کر پنجاب سبقت لے گیا ہے۔ ہمارا وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو  "Salute" کرنے کو جی چاہتا ہے۔‘‘ جم جم کریں! خادمِ اعلیٰ پنجاب اہلِ پنجاب کے مائی باپ ہیں۔ مُجھے تو خواتین ارکان اسمبلی کے  خادمِ اعلیٰ کو سیلوٹ کرنے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن اِس سے پہلے اُنہیں مسلم لیگ (ن) کے اتحادی مولانا فضل الرحمٰن سے "Clearance" لینا ہو گی۔ مولانا نے  جناب عمران خان کے دھرنے میں شریک ہونے والی خواتین کو نہ جانے کیا کیا کہا تھا؟ البتہ ’’شیخ اُلاِسلام‘‘ علاّمہ طاہر اُلقادری کی میں ضمانت نہیں دے سکتا۔ اُنہوں نے تو ہر کسی کو گالیوں سے نوازنے کا لائسنس لے رکھا ہے۔ خواتین ارکان اسمبلی کو اپنے "Risk" پر خادمِ اعلیٰ کو "Salute" کرنا ہو گا۔ خواتین ارکانِ اسمبلی کا ’’نامحرم‘‘  وزیرِ اعلیٰ کو "Salute" کرنے پر پاکستان میں داعِش کے سفیرِ کبیر مولوی عبدالعزیزکا ردِعمل کیا ہوگا؟ اُس سے وہ خُود نمٹیں۔  
جنرل (ر) مشرّف کے خلاف ’’جعلی مقدمات!‘‘
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرّف نے کراچی میں چترال کے عمائدِین سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’مجھ پر جعلی مقدمات بنا کر سیاست چمکائی جا رہی ہے۔ مَیں اللہ کے سِوا کسی سے نہیں ڈرتا، جعلی مقدمات کا سامناکر رہا ہوں اور آئندہ بھی کروں گا۔‘‘ مجھے کہا گیا ہے کہ مَیں صادق اور امین نہیں ہُوں کیا موجودہ اسمبلیوں میں صادق اور امین بیٹھے ہیں؟ جناب پرویز مشرّف نے اِس عزم کا اظہار کیا کہ ’’آئندہ مَیں سیاست میں بھرپور کردار ادا کروں گا۔ کراچی، اسلام آباد اور چترال سے انتخاب لڑوں گا اور مُلکی دولت لوٹنے والوں سے عوام کو چھٹکارا دِلوائوں گا۔‘‘
مَیں نے مختلف نیوز چینلوں پر دیکھا کہ جناب پرویز مشرّف بہت ہی حوصلے میں تھے۔ جب مخالفین کمزور پڑ جائیں تو کوئی بھی شخص خود کو طاقتور محسوس کرنے لگتا ہے اور پرویز مشرّف تو پاک فوج کے سربراہ اور وردی سمیت صدرِ پاکستان رہے ہیں۔ جعلی اور اصلی مقدمات میں کیا فرق ہوتا ہے؟ اِس کا فیصلہ تو عدالتیں کرتی ہیں۔ بعض اوقات عدالتیں بھی نہیں کرتیں ’’حُجرہ اِلتوا‘‘ میں محفوظ کر دیتی ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف پہلے فوجی سابق صدر ہیں جِن پر ’’غدّاری کا مقدمہ‘‘ چل رہا ہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان اور جنرل یحییٰ خان اورجنرل ضیاء الحق پر بھی غدّاری کا مقدمہ نہیں چلایا گیا اور نہ ہی جناب ذوالفقار علی بھٹو پر مُلک توڑنے اور سوِیلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے کئے گئے  اُن کے فیصلوں پر؟
مَیں نے  اپنے  ایک کالم میں لِکھا تھا کہ ’’مختلف مُلکوں میں بادشاہوں اور فوجی جرنیلوں کو اُس وقت تختۂ دار پر لٹکایا گیا جب وہاں کوئی ’’انقلابی پارٹی‘‘ اقتدار میں تھی یا وہاں  "Anarchy" (طوائف اُلملوکی) تھی۔ مسلم لیگ (ن) ’’انقلابی پارٹی‘‘ نہیں ہے اور نہ ہی  پاکستان میں طوائف اُلملوکی ہے تو جنرل (ر) پرویز مشرّف کو غدّاری کے مقدمہ میں پھانسی کیسے دی جا سکتی ہے؟ صدرجنرل پرویز مشرف کو صدر زرداری نے پورے پروٹوکول کے ساتھ رُخصت کِیا تھا۔ کیوں؟  پاک فوج اپنے سابق سربراہ کو تختۂ دار پر کیسے لٹکنے دے گی؟ اور اُن کے بیرونی دوست؟
اسلام آباد کی لال مسجد کے خطیب مولوی عبدالعزیز کی طرف سے خُود کو ’’امیر اُلمومنین‘‘ قرار دینے اور پُورے مُلک میں شریعت نافذ کرنے کے اعلان کے ساتھ صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیرِاعظم شوکت عزیز کی مسلم لیگ (ق) کی حکومت کو دھمکی دی گئی تھی کہ ’’اگر اُس نے شریعت کے نفاذ میں رکاوٹ ڈالی تو پُورے مُلک میں خودکُش حملے ہوں گے۔‘‘ یہ عبدالعزیز کا  ریاستِ پاکستان کو یہ کھُلا چیلنج  تھا۔ اگر جناب آصف زرداری صدر اور میاں نواز شریف وزیرِاعظم ہوتے تو کیا وہ لال مسجد اور جامعہ حفصہ میں فوجی آپریشن کا حُکم نہ دیتے؟ 15 جولائی 2013ء کے ’’نوائے وقت‘‘ میں شائع ہونے والے میرے کالم کا عنوان تھا  "A Judge May Misjudge" آخر جج بھی انسان ہوتا ہے، اُس میں بھی انسانی کمزوریاں ہو سکتی ہیں، اُس کی بھی پسند ناپسند ہوتی ہے، اُسے بھی غُصّہ آسکتا ہے۔ وہ بھی غلط فیصلہ کر سکتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اِس وقت ہر قبیل کے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ضرب اُلعضب پرسیاسی اور عسکری قیادت میں اتحاد و اتفاق ہے، اِس کے باوجود دہشت گردوں سہولت کاروں‘‘ کی طرف سے کھُلے اور دبے لفظوں میں اُس کی مذّمت کی جا رہی ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت ان پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالتی؟ کیا لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر فوجی آپریشن کے اکیلے جنرل (ر) پرویز مشرّف قصور وار تھے؟ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوگا اور ہاں! جنرل (ر) پرویز مشرّف صاحب! بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی کا مقولہ تو سند اختیار کر چُکا ہے کہ ’’ڈگری اصلی ہو یا جعلی ڈگری ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح ’’مقدمہ اصلی ہو یا جعلی مقدمہ تو ہوتا ہے۔‘‘

ای پیپر-دی نیشن