دہشت گردی کےخلاف کاروائیاں مزید تیز کرینگے: وزیر اعظم، آرمی چیف میں اتفاق
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ آن لائن+ نوائے وقت نیوز) وزیر اعظم نواز شریف سے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ملاقات کی جس میں ملک کی مجموعی صورتحال‘ آپریشن ضرب عضب‘ قومی ایکشن پلان اور پیشہ وارانہ امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم ہاﺅس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ملاقات میں جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم کو آپریشن ضرب عضب اور حالیہ دورہ افغانستان پر بریفنگ دی۔ وزیراعظم نے آپریشن ضرب عضب میں فوج کی کامیابیوں کو سراہا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے آپریشن ضرب عضب کی پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لانے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کیلئے پرعزم ہے او دہشت گردی کیخلاف جنگ ہر صورت جیتیں گے۔ ملاقات میں آئی ڈی پیز کی بحالی کے منصوبے پر بھی غور کیا گیا۔ وزیراعظم کو ایپکس کمیٹی کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ ذر ائع کے مطابق ملاقات میں فوجی عدالتوں کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ دریں اثنا نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی رپورٹ وزارت داخلہ نے وزیراعظم کو پیش کر دی جس کے مطابق 24 دسمبر سے اب تک ملک بھر میں 19 ہزار 789 آپریشنز کئے گئے، آپریشنز میں 19 ہزار 272 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پنجاب میں 11 ہزار 634 آپریشنز کئے گئے۔ 3003 آپریشن سندھ، 3737 خیبر پی کے، 57 آپریشن بلوچستان میں کئے گئے۔ اسلام آباد میں 368، آزاد کشمیر میں 891 اور گلگت بلتستان میں 35 آپریشن کئے گئے۔ فاٹا میں 68 آپریشن کئے گئے۔ پنجاب سے 2255، سندھ سے 3552 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ملک بھر میں انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر 1250آپریشن کئے گئے، مذہبی منافرت پھیلانے پر 558 افراد گرفتار، 5066 افغان مہاجرین کو واپس افغانستان بھیج دیا گیا، ہنڈی کے ذریعے غیر قانونی فنڈز منتقلی کے 23 مقدمات درج کر کے 26 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ نادرا کی مدد سے 5کروڑ 76 لاکھ سموں کی بائیومیٹرک کے ذریعے تصدیق کی گئی، ملک بھر میں سب سے زیادہ آپریشن پنجاب میں کئے گئے اور سب سے زیادہ گرفتاریاں کے پی کے میں کی گئیں۔ دی نیشن کے مطابق وزیراعظم اور آرمی چیف نے خطے اور ملک میں امن کے قیام کے حوالے سے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق دونوں رہنماﺅں نے کالعدم تحریک طالبان کے امیر ملا فضل اللہ کے حوالے سے بھی بات کی اور آرمی پبلک سکول پر حملے کے ملزموں جن میں فضل اللہ بھی شامل ہے، کو زندہ یا مردہ پکڑنے کا عزم دہرایا گیا۔ ملاقات میں افغانستان میں ہونے والی تازہ پیشرفت پر بات کی۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے آرمی چیف کے اقدامات کی تعریف کی اور دونوں رہنماﺅں نے افغان حکومت اور طالبان کے مذاکرات پر اطمینان کا اظہار کیا اور اس پراسیس میں سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے پر اتفاق کیا۔ ملاقات میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باﺅنڈری کی صورتحال پر بھی بات ہوئی۔
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) اطلاعات کے مطابق پاکستان کو انتہائی مطلوب ملزم ملا فضل اللہ کوگرفتاری یا ہلاکت سے بچانے کیلئے تورابورا کے قریب سپن غر کے مقام پر کوہستانی ٹھکانے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ ایک قابل اعتماد ذریعہ کے مطابق افغان حکومت کے طاقتور عناصر ملا فضل اللہ کو بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں جب پاکستان نے ملا فضل اللہ کے خلاف کارروائی کیلئے دباﺅ بڑھایا تو کنڑ میں افغان فوج نے درمیانے درجے کے آپریشن کئے لیکن اس سے پہلے فضل اللہ کو جلال آباد منتقل کر دیا گیا اور ان کارروائیوں میں اسے ذرا نقصان پہنچنے کا بھی احتمال پیدا نہیں ہوا۔ پاکستان کی جانب سے مزید دباﺅ اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی طرف سے مختصر وقفے کے بعد دوسری بار دورہ کابل کے بعد ملا فضل اللہ کو لگ بھگ ڈیڑھ سو ساتھیوں سمیت سپن غر کے مقام پر منتقل کر دیا گیا جہاں سردست وہ آرام سے زندگی گزار رہا ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق پاکستان کو مطلوب ٹی ٹی پی کے ایک اور اہم کمانڈر خالد خراسانی کی بھی حالیہ ڈرون حملہ میں زخمی ہونے کی اطلاعات درست نہیں۔ افغان حکومت میں شامل ایک انتہائی موثر لابی پاکستان کو مطلوب افراد کوکسی بھی کارروائی کی نہ صرف پیشگی اطلاع فراہم کر دیتی ہے بلکہ انہیں نئے محفوظ مقامات بھی فراہم کر دئیے جاتے ہیں۔ معاملہ یہیں تک محدود نہیں شمالی وزیرستان اور فاٹا سے فرار ہونے والے قبائلی جنگجوﺅں اور پنجابی طالبان کو افغان صوبہ خوست میں باقاعدہ ایک بندوبست کے تحت ٹھہرایا گیا ہے اور ان کے قیام و طعام کے علاوہ مکمل مالی مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق پاکستان کا ایک مشرقی اور ایک جنوب مغربی پڑوسی ملک بھی ٹی ٹی پی کے ان بھگوڑوں کو پاکستان کے اندر تخریب کاری کیلئے مالی مدد فراہم کرنے میں پیش پیش ہیں اور اس کام کیلئے بدستور افغان سرزمین استعمال کی جا رہی ہے۔ سیاسی اور عسکری سطح پر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہترین پیشرفت کے باوجود یہ تعلقات ترقی معکوس کا بھی شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ افغان حکومت پاکستان کو مطلوب افراد کے خلاف اب تک موثر کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے۔