• news

کوڑا کرکٹ ڈپلومیسی

معروف جواریے معین خان نے اعتراف تو کر لیا کہ وہ کسینو گیا تھا۔ کہتا ہے میں کھانا کھانے گیا تھا۔ اپنی اہلیہ محترمہ کو بھی ساتھ لے گیا۔ مجھے اپنے گائوں کا ایک شخص یاد آیا جو اتنا ’’مخلص اور کمٹڈ‘‘ جوئے باز تھا کہ ایک دفعہ جوئے میں اپنی بیوی بھی ہار گیا۔ ہمارے کھلاڑی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے افسران وغیرہ کرکٹ کے میدان میں ہارتے نہیں ہیں۔ اپنا وطن بیچ دیتے ہیں۔ ورنہ کھیل میں تو ہار جیت ہوتی ہے۔ پوری قوم کتنے شوق اور جذبے سے میچ دیکھتی ہے۔ نعرے لگائے جاتے ہیں۔ وہ اپنی ٹیم کا بھارت سے ہارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہماری پیاری ٹیم اتنی بری طرح ہارتی ہے کہ لوگ حوصلہ بھی ہار دیتے ہیں۔ ہارنا بری بات نہیں۔ مگر وہ بری طرح ہارتی ہے کہ عوام کو کچھ اچھا نہیں لگتا۔ لگتا ہے کہ ہمارے کھلاڑی جان بوجھ کر ہارتے ہیں۔ ہمارے کھلاڑی جس طرح آئوٹ ہوئے اسے گیٹ آئوٹ کہتے ہیں۔
جوئے اور کرپشن کی بات تو کچھ دیر سے شروع ہوئی۔ بھارتی وزیراعظم مودی نے پاکستانی وزیراعظم کو فون کیا۔ اس کے بعد جو ہوا وہ ہو گیا؟ پچھلے ورلڈ کپ میں نااہل وزیراعظم گیلانی اور وزیرداخلہ رحمان ملک کرکٹ میچ دیکھنے بھارت گئے اور ہم میچ ہار گئے۔ گیلانی اور ملک صاحب سرخرو واپس آئے۔ راستے میں سرشار بھی ہوئے۔ ہم سے کسی نے پوچھا کہ صدر جنرل ضیاالحق بھی میچ دیکھنے گئے تھے مگر وزیراعظم راجیو گاندھی کو دن میں تارے دکھاگئے۔ دوسرے دن بھارتی فوجیں پاک سرحد سے واپس آ گئیں۔ اسے کرکٹ ڈپلومیسی کہا گیا۔ تب بھی ہم میچ ہار گئے تھے۔ مگر بھارت کرکٹ جیتنے کی خوشی نہ منا سکا تھا۔ اب کے ہم نے میچ ہارنے کی ڈپلومیسی بنائی۔ اسے کیا کہیں گے۔ میں نے کہا ہے کوڑا کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ تب ایٹمی دھماکے نہیں ہوئے تھے۔ اب دھماکے بھی ہو چکے ہیں!
اب جو ہم ورلڈ کپ میں کر رہے ہیں اس ڈپلومیسی کے لئے ابھی کوئی لفظ ذہن میں نہیں ہے۔ اسے فی الحال کسینو ڈپلومیسی کہہ سکتے ہیں۔ معین خان کتنی سادہ چالاکی سے یہ کہہ رہا ہے کہ سوچا بھی نہیں تھا کہ کسینو جانے سے معاملہ اتنا آگے بڑھ جائے گا اس کے لئے قوم سے معافی مانگتا ہوں۔ یہ تو سیاسی معافی ہے۔ ہمارا تقریباً ہر سیاستدان اپنے اپنے بلنڈر کے لئے معافی مانگ چکا ہے۔ اس بلنڈر میں کرپشن اور نااہلی بھی شامل ہے۔ کوئی بھی استعفیٰ نہیں دیتا۔ صرف معانی مانگتا ہے۔
معین خان جوئے بازی کے حوالے سے بہت معروف اور ماہر ہے۔ وہ کسی نہ کسی حیثیت میں کرکٹ بورڈ میں رہا ہے۔ اسے بورڈ میں نجم سیٹھی لے کے آئے۔ نجم سیٹھی کو نواز شریف بورڈ میں لے کے آئے۔ انہیں نگران وزیراعلیٰ بنانے میں بھی نواز شریف کی منظوری فائنل ثابت ہوئی۔ اگر معین خان قوم کو بیچنے میں ملوث ہے تو اس کے سلسلے کہاں کہاں تک ملے ہوئے ہیں۔ نجم سیٹھی کو بھی بار بار چیئرمین بورڈ بنایا گیا۔ معین کو بھی کم از کم تین بار تو موقع دیا جائے گا۔ اس سے پہلے اتنا تو کر لینا چاہئے کہ کراچی کے بیش بہا علاقے ڈی ڈیچ اے میں اپنا ’’ذاتی‘‘ کرکٹ سٹیڈیم کے لئے انکوائری کرائی جائے کہ معین خان کے پاس اتنے روپے کہاں سے آئے۔ یہ نہیں ہو گا کسی نے اسحاق ڈار سے پوچھا ہے کہ آپ کے پاس 40 لاکھ ڈالر کہاں سے آئے جو اپنے بیٹے کو قرض دیا۔ دوسرے کئی امیر کبیر اور کرپٹ سیاستدانوں سے کوئی پوچھنے والا ہے تو کرکٹرز اور کرکٹ بورڈ کے نجم سیٹھیوں اور معین خانوں سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ لوگ بہرحال لوٹ مار کرنے والے حکمران سیاستدانوں افسروں بیرون ملک بینکوں میں اکائونٹس رکھنے والوں اور بے شمار اور بیش بہا اثاثوں کے مالک لوگوں سے کم کرپٹ اور وطن فروش نہیں۔ بھارت سے ہارنے کے بعد ورلڈ کپ جیت بھی لیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بھارت سے ہارنے کی باقاعدہ سرکاری اور غیرسرکاری منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
اس سے پہلے پاکستانی کرکٹرز محمد عامر، محمد آصف اور سلمان بٹ کو جوئے بازی کے معاملات میں ملوث ثابت ہو جانے کے بعد پانچ سال سات سال اور دس سال کے لئے کرکٹ کھیلنے پر پابندی کی سزا دی جا چکی ہے۔ یہ لوگ میڈیا پر آج بھی ایک ہیرو کی طرح نظر آتے ہیں؟ جو لوگ اس معاملے میں سامنے آئے وہ بڑے فخر سے اپنی حیثیت کو سامنے لاتے ہیں۔ ذکا اشرف ’’صدر‘‘ زرداری کے آدمی ہیں۔ ان کے بیٹے کا ولیمہ بلاول ہائوس لاہور میں کیا گیا ہے۔ جنرل توقیر ضیا جنرل مشرف کے خاص آدمی ہیں۔ اعجاز بٹ تو بہت سے لوگوں کے آدمی ہیں۔ ان کے زمانے میں ان کے لئے لطیفے چلائے گئے مگر وہ ڈھٹائی سے عہدے کے ساتھ چمٹے رہے۔ کرکٹ کا کھیل اب جوئے کی سب سے بڑی منڈی بن چکا ہے۔ اس میں سب ٹیمیں شامل ہیں مگر بدنام پاکستان اور بھارت زیادہ ہیں۔ بھارت اور پاکستان کو انیس بیس کے فرق سے دیکھا جا سکتا ہے۔ جنوبی افریقہ کے شاندار اور اچھے کپتان ہنسی کرونئے نے موت سے دو سال پہلے اعتراف کیا تھا کہ میں میچ فکسنگ کرتا رہا ہوں۔ ویسٹ انڈیز کے نامور کپتان کلائیو لائیڈ نے کھلے عام کہا تھا کہ ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے۔ ہم میچ فکسنگ کریں گے۔ تو پیسوں کی کس کو ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں جس شعبے میں جس کا زور چلتا ہے جسے موقع ملتا ہے وہ لوٹ مار کرتا ہے۔ کرپشن کرتا ہے۔ ضمیر فروشی اور وطن فروشی کرتا ہے۔ جو باتیں اب کرکٹ ٹیم کے بارے میں کی جا رہی ہیں۔ لوگ گالیاں نکال رہے ہیں۔ بددعائیں دے رہے ہیں۔ لوگ پاکستانی جوئے بازوں پر دہشت گردی کے تحت خصوصی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اب اگر پاکستانی ٹیم اچھی کارکردگی دکھاتی ہے تو ثابت ہو جائے گا کہ پہلے جو کچھ ہوا ہے وہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا؟ کرکٹ پر پابندی لگانے کے مطالبے کئے جا رہے ہیں۔ یہ باتیں کئی بار کی جا چکی ہیں۔
دوسرے لاکھوں لوگوں کی طرح میں بھی اس بات کا حامی ہوں کہ کرکٹ پر کم از کم دس سال کے لئے پابندی لگا دی جائے۔ پھر نئے سرے سے کرکٹ بورڈ اور ٹیم بنائو۔ اس دوران گلی ڈنڈے سے کام چلائو۔ میرا یقین ہے کہ کرکٹ ہمارے گلی ڈنڈے کی ایڈوانس شکل ہے۔ گلی ڈنڈا تو ہوتا ہی ون ڈے میچ ہے۔ اور بالکل کرکٹ میچ کی طرح ہوتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن