سینٹ الیکشن: حکومت فضل الرحمن کو حمایت کیلئے منانے میں ناکام‘ سربراہ جے یو آئی کی زرداری سے ملاقات
کراچی+ اسلام آباد + لاہور (نیوز ایجنسیاں+ نمائندہ خصوصی+ خصوصی رپورٹر) پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سینٹ الیکشن کیلئے حتمی معاملات طے پا گئے، دونوں جماعتوں کے دو دو امیدوار بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہو گئے۔ مشترکہ امیدوار لانے پراتفاق کر لیا گیا۔ گزشتہ روز سابق وزیر داخلہ رحمن ملک اور ایم کیو ایم کے رہنما سردار احمد کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں سینٹ الیکشن، سندھ حکومت میں ایم کیو ایم کی شمولیت، صوبے میں امن وامان اور دیگر اہم معاملات پر بات چیت کی گئی۔ ملاقات کے بعد رحمن ملک نے سردار احمد کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان نیا دور شروع ہوگیا ہے، ہمیں ادھر ادھر اڑنے والے لوگوں کے پر کاٹنے ہوں گے۔ لوٹوں پر نظر رکھنا ہوگی۔ لوٹاکریسی روکنے کے لئے جو بھی اقدامات اٹھانا پڑے اٹھائیں گے اور اس حوالے سے آئین میں ترمیم ہونی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنا تمام جماعتوں کا فرض ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کے خلاف امید وار دستبردار کر دیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان مفاہمت آصف زرداری اور الطاف حسین کے سر ہے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما سردار احمد نے کہا ہے کہ الطاف حسین سے رابطہ ہوا ہے، سینٹ الیکشن میں اتحاد پر سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ دونوں پارٹیوں کے درمیان اختلاف دور ہوگئے ہیں اور جلد دیگر معاملات کو بھی بات چیت کے ذریعے حل کیا جائیگا۔ دوسری جانب سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے کورنگ امیدواروں نے کاغذات واپس لے لئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے سینٹ الیکشن کی جنرل نشست پر خوش بخت شجاعت اور میاں عتیق امیدوار ہوں گے۔ ایم کیو ایم کے بابر غوری، گلفراز خٹک، سید رضا زیدی اور خواتین کی نشست کیلئے تحسین مشکور نے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے ہیں۔ ادھر پیپلز پارٹی کے رحمن ملک نے ٹیکنوکریٹ کی نشست اور شمع مٹھانی نے بھی کاغذات واپس لئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے وفد نے سید سردار احمد کی قیادت میں وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ سے بھی ملاقات کی۔ سندھ سے سینٹ الیکشن کے لئے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے 2، 2 امیدوار غیر سرکاری طور پر بلا مقابلہ منتخب ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم کی جانب سے نگہت مرزا اور بیرسٹر سیف جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک اور سسی پلیجو بلامقابلہ منتخب ہو گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی سسی پلیجو کے حق میں ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت اور فاروق ایچ نائیک کے حق میں ایم کیو ایم کے قادر خانزادہ دستبردار ہو گئے جبکہ ایم کیو ایم کی نگہت مرزا کے حق میں پیپلز پارٹی کی شمع مٹھانی اور بیرسٹر سیف کے حق میں رحمن ملک دستبردار ہوگئے۔ واضح رہے کہ ٹیکنوکریٹ نشستوں سے دستبرداری کے بعد اب پیپلز پارٹی کے رحمن ملک اور ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت سینٹ کی جنرل نشستوں پر انتخاب لڑیں گے۔سینٹ انتخابات میں 50 جنرل اور 2 اقلیتی نشستوں پر 131 امیدواروں میں مقابلہ ہوگا‘ سب سے زیادہ امیدوار فاٹا کی 4 نشستوں پر 36 ‘ سندھ کی گیارہ نشستوں پر سب سے کم 12 امیدوار ہیں۔ الیکشن کمشن آف پاکستان سے سینیٹ کے امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کر دی ہے۔ بلوچستان میں سات جنرل دو علماءو ٹیکنوکریٹ دو خواتین اور ایک اقلیتی نشست سمیت بارہ نشستوں پر 32 جبکہ خیبر پی کے کی 12 نشستوں پر 27 امیدوار میدان میں ہیں۔ اسلام آباد کی 2 نشستوں پر 8 امیدواروں کا مقابلہ ہو گا۔ وفاقی دارالحکومت کی جنرل نشست پر 4 جبکہ خواتین کی مخصوص نشست پر بھی 4 امیدوار سامنے آ گئے۔ فاٹا سے 2 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لئے ہیں جبکہ دیگر 36 امیدواروں میں 5 مارچ کو مقابلہ ہو گا۔ دریں اثناءالیکشن کمشن ذرائع کے مطابق سینٹ انتخابات کیلئے تین ہزار سے زائد بیلٹ پیپرز چھاپے جائیں گے۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی آج سے شروع کی جائے گی۔ بیلٹ پیپرز پرنٹنگ کارپوریشن سے چھپوائے جائیں گے۔ مسلم لیگ ن نے پنجاب سے جنرل نشستوں پر سینٹ کے امیدواروں خواجہ محمود احمد اور سعود عزیز کو دستبردار کروایا۔ اس طرح اب پنجاب میں مسلم لیگ ن کے سات جنرل نشستوں پر 9 امیدوار موجود ہیں جن میں پرویز رشید، مشاہد اللہ خان، نہال ہاشمی، چودھری تنویر، لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم، ڈاکٹر غوث نیازی، سلیم ضیائ، سعود مجید اور خواجہ محمود شامل ہیں جبکہ ٹیکنوکریٹ/ علماءکی دو نشستوں پر راجہ محمد ظفر الحق اور پروفیسر ساجد میر اور خواتین کی دو مخصوص نشستوں پر بیگم نجمہ حمید اور عائشہ رضا فاروق امیدوار ہیں۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نیشن رپورٹ) حکومتی ٹیم ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کو سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے 22 ویں ترمیم کی حمایت کرنے کے حوالے سے قائل کرنے میں ناکام رہی اور جے یو آئی ف کے امیر نے 21 ویں اور 22 ویں ترامیم پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے ترمیم کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کردیا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اطلاعات پرویز رشید اور سعد رفیق نے مولانا فضل الرحمن سے کھل کر حمایت طلب کی تھی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ تحریک انصاف گائے کی دُم پکڑ کر پارلیمنٹ واپس آنا چاہتی ہے اور اس کیلئے آئینی ترمیم کا بہانہ بنا رہی ہے، اس طریقے سے یہ قومی اسمبلی میں واپس آئے تو یہ ایوان کیلئے اجنبی ہوں گے یا پھر انہیں تسلیم کرنا ہوگا کہ استعفے جھوٹے تھے۔ وقت کا غلط انتخاب کیا ہے۔ ہمیں ارکان کو انکے مشکوک ہونے کا پیغام نہیں دینا چاہئے۔ وہ سینٹر پرویز رشید اور خواجہ سعد رفیق سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ آئینی ترمیم کے معاملے پر وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کیا تھا۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق 21 ویں ترمیم پر بھی ایک بار پھر تحفظات سے حکومت کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ فضل الرحمن نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے امتیاز نہیں برتا جا سکتا۔ دہشت گردی چاہے جس شکل میں بھی ہو اس کے لئے کسی مسلک مذہب کا خصوصی طور پر نام استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ اس موقع پر وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا مولانا فضل الرحمن کے تحفظات سے وزیراعظم کو آگاہ کریں گے۔ ہمیں دہشتگردی و انتہا پسندی کیخلاف ان کا اسی طرح تعاون درکار ہے جو وہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کیلئے کرتے رہے ہیں۔ سینٹ انتخابات کی شفافیت سے متعلق آئینی ترمیم کے حوالے سے سوال کے جواب میں پرویز رشید نے کہا کہ یہ کسی کے نفع و نقصان کی بات نہیں، ہمیں ملک میں اعلیٰ اقدار کو قائم کرنا ہے۔ بدقسمتی سے آمریتوں میں انتخابات سے متعلق ان اخلاقیات کو کچلنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی۔ فرقہ واریت، برادری اور پیسے کے بل بوتے پر اس قسم کی سیاست آمرانہ ادوار کے تحفے ہیں ہم اس گند کو ہمیشہ کیلئے صاف کرنا چاہتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نئی قانون سازی اور احتجاج دو الگ الگ معاملات ہیں، میرے اندر تو یہ جرا¿ت نہیں ہو سکتی کہ سینٹ انتخابات کے اہم موقع پر ووٹ کا استعمال کرنیوالوں کو یہ پیغام دوں کہ کیونکہ وہ مشکوک ہوسکتے ہیں اس لئے خفیہ بیلٹ کا طریقہ استعمال نہیں کیا جائیگا یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا اور پھر انتخابی اصلاحاتی کمیٹی تین چار ماہ قبل بن گئی تھی مگر اس اہم مرحلے پر جب تمام جماعتیں اس عمل میں شریک تھی وہ بائیکاٹ پر چلے گئے اور باہر دھرنے شروع کر دئیے۔ جب کمیٹی بنی تھی اس وقت معاملہ حل ہو سکتا تھا اب قومی اسمبلی میں آنے کیلئے ترمیم کا بہانہ بنا رہے ہیں، یہ تو ایسے ہے جیسے کوئی گھر سے خود ناراض ہو کر چلا جائے اور گھر واپس آنے کیلئے اپنے گھر آنیوالی گائے کی دُم پکڑ لے اور کہے کہ میں گھر نہیں جاﺅنگا میں گھر نہیں جاﺅں گا اور گائے کے ساتھ گھر داخل ہو جائے۔ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس طریقے سے یہ قومی اسمبلی میں واپس آئے تو یہ ایوان کیلئے اجنبی ہوں گے یا پھر انہیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے استعفے جھوٹے تھے یہ ضرور آئیں ہمیں خوشی ہو گی مگر ہر کام آئین و قانون کے تابع ہونا چاہئے۔ جب انہیں اپنی ترمیم کے مطالبے پر وزیراعظم کا مثبت جواب مل گیا تو یہ بہانہ مل گیا اور گائے کی دُم پکڑ کر واپس آنا چاہتے ہیں۔ دریں اثناءسابق صدر آصف زرداری سے جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ملاقات کی جس میں سینٹ انتخابات، ملک کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ روکنے اور مجوزہ 22ویں ترمیم پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ دونوں رہنماﺅں کی ملاقات آصف علی زرداری کی رہائش پر ہوئی۔دی نیشن رپورٹ کے مطابق حکومتی ٹیم فضل الرحمن کو آئینی ترمیم کی حمایت پر منانے میں ناکامی کے ساتھ انہیں خیبر پی کے میں انتخابی اتحاد بنانے کیلئے بھی قائل نہیں کرسکی جبکہ فضل الرحمن نے زرداری سے اہم ملاقات کرکے انتخابی اتحاد پر بات کی۔ پیپلزپارٹی کی اگرچہ بلوچستان اسمبلی میں کوئی نشست نہیں ہے تاہم زرداری ق لیگ اور بی این پی عوامی پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے جے یو آئی ف کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری کو سینیٹر بننے میں مدد کرسکتے ہیں کیونکہ انہیں کامیابی کیلئے 2 ووٹوں کی اشد ضرورت ہے۔ خیبر پی کے میں جے یو آئی ف ‘ پیپلزپارٹی‘ اے این پی سے اتحاد کرلیتی ہے تو وہ 2 نشستیں جیت سکتے ہیں جبکہ اس اتحاد میں قومی وطن پارٹی کے شامل ہونے کی صورت میں یہ چار نشستوں پر کامیاب ہوسکتے ہیں۔ خیبر پی کے میں آفتاب شیر پاﺅ کی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ چل رہی ہے تاہم نئے رابطوں کے بعد وہ جے یو آئی ف، پیپلز پارٹی سے ملکر الیکشن لڑنے کی صورت میں بہتر بارگیننگ کرسکے گی۔