• news

امریکہ کو گیس منصوبے کی مخالفت ترک کرنے پر قائل کیا جا سکتا ہے

ایران نے گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کیلئے پاکستان کو دو برس کی مہلت دیدی‘ پاکستان کو جرمانے سے استثنیٰ مل گیا

ایران نے گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل میں دو سال کی توسیع کردی، آئی پی منصوبہ 2017ءتک مکمل کیا جائےگا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق عالمی پابندیوں کے باعث ایران نے آئی پی گیس پائپ لائن منصوبے کیلئے پاکستان کو دو سال کی مزید مہلت دی ہے جس کے تحت پاکستان رواں سال مارچ میں گیس پائپ لائن کی تعمیر کا آغاز کرےگا اور 2017ءکے اوائل میں اسے مکمل کر لیا جائےگا۔ پاکستان کو ستر کلومیٹر گیس لائن بچھانی ہے جس کے بعد پاکستان کو ایران سے ابتدائی طور پر یومیہ ساڑھے سات سوملین کیوبک میٹر گیس ملے گی۔ واضح رہے کہ تہران کی جانب سے گیس پائپ لائن کی تعمیر کا کام مکمل ہوچکا ہے، لیکن پاکستان کی جانب سے ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی، حتمی تاریخ نہ بڑھنے کی صورت میں پاکستان کو یومیہ 30 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرنا پڑتا۔
وزیراعظم میاں نوازشریف نے دہشت گردی کے خاتمے کے بعد انرجی کرائسز پر قابو پانے کو اپنی حکومت کی ترجیح قرار دیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور میں توانائی کے بحران نے سنگین صورتحال اختیار کرلی۔ اس پر قابو پانے کیلئے سابق حکومت نے مقدور بھر کوشش کی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ رینٹل پاور پلانٹ منگوائے اور لگائے گئے‘ انکے حوالے سے کرپشن کی نت نئی کہانیاں ہر روز منظر پر آتی رہیں۔ ان میں کوئی حقیقت تھی یا نہیں البتہ یہ حقیقت ضرور تھی کہ توانائی بحران پیپلزپارٹی کو 2013ءکے انتخابات میں لے ڈوبا۔ مسلم لیگ (ن) نے توانائی بحران پر قابو پانے کے دعوے اور وعدے کئے تھے‘ عوام نے اسی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ دیا‘ اسے اقتدار میں آئے بیس 21 ماہ ہو چکے ہیں مگر توانائی بحران جوں کا توں ہے بلکہ گیس کی زیادہ ہی کمی ہے۔ پہلے صنعتوں‘ گھروں اور سی این جی سٹیشنوں کو گیس ملتی تھی‘ اب اسکی مقدار مزید قلیل ہو گئی ہے۔ بجلی اور گیس کی قلت کے حوالے سے جو بھی وجوہات ہوں‘ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنے ووٹر کو مطمئن نہیں کر پارہی۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ کبھی بجلی اور کبھی گیس کی اعلانیہ اور غیراعلانیہ لوڈشیڈنگ کیخلاف سڑکوں پر ہوتے ہیں۔
 عوام کو کوئی بھی سیاسی حکومت مطلوبہ ریلیف فراہم نہ کرکے اپنا جلوس نکلوانا پسند کرتی ہے اور نہ اسکی متحمل ہو سکتی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست کا حشرنشر عوام کے سامنے تو ہی ہے‘ مسلم لیگ ن کو بھی یقیناً اس کا ادراک ہو گا مگر عوام کو ریلیف دینے میں ایک تو کوئی پلاننگ نظر نہیں آتی‘ دوسرے کمٹمنٹ کا بھی فقدان ہے۔ مخالفین تو کہتے ہیں اہلیت ہی اتنی ہے۔ شاید سوچا جارہا ہے کہ اپنی آئینی مدت کے آخری سال عوام کو رام کرنے کیلئے کرشمے کر دکھائیں گے۔ ایسے کرشموں کی بنیاد بھی آج رکھی جائیگی تو آخری سال انکی تکمیل ممکن ہو گی۔ دوسری صورت میں مستقبل پیپلزپارٹی کے آج کے حال جیسا ہوگا۔
 توانائی کے حوالے سے بہت سے معاہدے ہوئے‘ نندی پور کا بھی پہلو میں بڑا شور تھا مگر وہ آجکل ایک واٹ بجلی کی پیداوار سے بھی قاصر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گڈانی سولر پارک کا منصوبہ اپنی موت آپ مرگیا۔ تھر کے کوئلے سے بجلی نہ جانے کب بنے گی۔ میاں نوازشریف تھر کوئلے کے افتتاح کیلئے گئے‘ میزبانی زرداری صاحب کررہے تھے‘ میاں نوازشریف نے پوچھا کہ کوئلے کی کان کہاں ہے؟ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے فرمایا‘ جہاں ہم کھڑے ہیں‘ نیچے کوئلہ ہے۔ اب پتہ نہیں کوئلہ یہاں ہے‘ کتنا اور کس معیار کا ہے البتہ ثمرمبارک مند اس علاقے میں کوئلہ سے بجلی کے ساتھ ساتھ گیس پیدا کرنے کے دعوے بھی کرتے ہیں۔ اس گیس سے چند گھنٹے شمع جلا کر اپنی کامیابی کا اعلان فرما دیتے ہیں۔ اپنے پراجیکٹ کیلئے اربوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں اور شاید 10 ارب صرف بھی کر دیئے گئے مگر قوم کو گیس ملی نہ بجلی جبکہ دیگر سائنس دان انکے ساتھ متفق نہیں۔ ثمرمبارک مند تھر سے تو کچھ پیدا نہ کر سکے‘ اب چنیوٹ میں ملنے والے سونے اور تانبے کے ذخائر کے حوالے سے وزیراعظم کو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا یقین دلا رہے ہیں۔ دیگر مشیر اور ماہرین بھی اسی طرح کے ہیں۔ اگر قابل اور اہل ماہرین کی خدمات سے استفادہ کیا جاتا تو آج کئی پاور پراجیکٹ مکمل ہونے کے بعد پیداوار شروع کر چکے ہوتے اور توانائی کے بحران سے عوام کو نجات مل چکی ہوتی۔
آج واقعی پاکستان کو توانائی کی شدید ضرورت ہے ‘ ہماری معیشت کا تمام تر دارومدار اسی پر ہے۔ ایران اس حوالے سے پاکستان کا بہترین معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ امریکہ نے اس پر اسکے نیوکلیئر پروگرام کے تحت پابندیاں لگائیں‘ پاکستان سمیت بہت سے ممالک نے اس کا ساتھ دیا مگر جب ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کا معائنہ کرانے کیلئے تیار ہو گیا تو ایران امریکہ تعلقات میں بہتری آنے لگی۔ امریکہ نے بہت سی پابندیاں اٹھالیں۔ یہ وہی دور تھا جب صدر آصف علی زرداری بڑے اہتمام سے پاک ایران گیس معاہدے کی تجدید کیلئے ایران گئے۔ یہ پیپلزپارٹی کی حکومت کے آخری ماہ تھے۔ مسلم لیگ ن کے حلقوں کی طرف سے دبے الفاظ میں کہا گیا کہ یہ معاہدہ ناقابل عمل ہے جو سیاسی شہرت اور ممکنہ مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی خاطر کیا گیا ہے۔
پاکستان اور ایران کے گیس پائپ لائن معاہدے کی تکمیل گزشتہ سال دسمبر کے آخر تک ہونا تھی‘ دوسری صورت میں پاکستان پر روزانہ 30 لاکھ ڈالر جرمانہ پڑنا شروع ہو جاتا۔ ایران کی طرف سے مذکورہ معاہدے کے تحت تنصیبات مکمل ہو چکی ہیں جبکہ پاکستان کی طرف سے شاید اس پر ابھی کام ہی شروع نہیں ہوا۔ ایران کی طرف سے اب پاکستان کو معاہدے کی تکمیل کیلئے دو سال کی مزید مہلت دی گئی ہے۔ اس دوران پاکستان جرمانے سے مستثنیٰ رہے گا۔ ایران کی طرف سے دی گئی مہلت سے پاکستان کو استفادہ کرنا چاہیے۔
آج کبھی تاپی معاہدے کی بات ہو رہی ہے اور کبھی بھارت سے گیس کی درآمد کا تذکرہ سننے میں آتا ہے۔ ایل این جی کی خریداری میں زیادہ ہی دلچسپی ظاہر کی جا رہی ہے۔ تاپی معاہدے کی تکمیل ممکن ہے نہ بھارت سے گیس درآمد کی جا سکتی ہے۔ البتہ ایل این جی فوری ضرورت کیلئے ضرور درآمد کی جا سکتی ہے۔ گیس کا آپ کے پاس متبادل نہیں ہے‘ اگر پاکستان سے اپنی ضرورت کے مطابق گیس مزید دریافت ہو جاتی ہے‘ واہ بھلی‘ مگر اس کا فوری امکان نظر نہیں آتا۔ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ ایران سے معاہدے کے تحت گیس حاصل کرلی جائے۔ اس کیلئے امریکہ کو آنکھیں دکھانے کی نہیں اپنا مسئلہ دانشمندی سے اسکے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب اسکے ایران کے ساتھ تعلقات بہتر ہو گئے ہیں‘ پابندیاں اٹھالی گئی ہیں‘ تو صرف پاکستان کو پابندیوں کے دباﺅ میں رکھنا مناسب نہیں۔ امریکہ اگر پاکستان پر حسب سابق ایران سے گیس نہ خریدنے پر دباﺅ ڈالتا ہے تو اسے ایران پر پابندیوں سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا مقصد بھارت کے نکتہ نظر کی حمایت ہو سکتا ہے۔ یہ پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ پاکستان کی قیمت پر بھارت کو خوش رکھے۔ اگر ہمارے حکمران اور سفارتکار امریکہ کو پاکستان کا مفاد باور کرانے میں کامیاب ہو گئے جس سے امریکی پالیسیوں پر بھی کوئی حرف نہیں آتا تو کوئی وجہ نہیں کہ امریکہ پاک ایران گیس پائپ لائن معاہدے کی مخالفت ترک نہ کرے۔

ای پیپر-دی نیشن