• news

نصیحت فائد ہ دیتی ہے

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ نے ایک بار خطبہ دیتے ہوئے ارشادفرمایا: اے لوگو! جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ،نہ ہی کتاب اللہ کے بعد کوئی اور(الہامی)کتاب ہے،جو چیزیں اللہ رب العزت نے اپنے رسول علیہ الصلوٰة والسلام کی زبان سے حلال ٹھہرادیں وہ قیامت تک حلال رہیں گی ، اورجو حرام ٹھہرادیں وہ قیامت تک حرام رہیں گی ،خوب سمجھ لو ! میں خود سے فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ میں تو اللہ اوراس رسول کے فیصلوں کو اللہ کی خاطر نافذکرنے والا ہوں، میں کوئی نیا راستہ نہیں نکالوں گا بلکہ اسلاف کے راستے پرمیں چلوں گا، سن لو!اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں کسی کی فرمانبرداری جائز نہیں‘ میں تم سے بہترنہیں بلکہ تمہی میں سے ایک فرد ہوں ، البتہ میری ذمہ داریاں تم سے زیادہ ہیں ۔(ابن جوزی)
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ارشادفرمایا: ”مزاحم“ (آپ کا خادم)وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے مجھے ایک نہایت مو¿ثر نصیحت کی ، ہوایوں کہ میںنے ایک شخص کو قید کردیا اوراس کی مقررہ سزاسے زیادہ مدت تک قید میں رکھنا چاہا، مزاحم نے مجھ سے اس کی رہائی کے بارے میں بات کی ، لیکن میںنے کہا:میں اسے بالکل نہیں چھوڑوں گا،یہاں تک کہ میں اسے اس کے جرم سے زیادہ سزانہ دے دوں،مزاحم نے کہا:امیر المومنین میں آپ کو (قبرکی) اس رات سے ڈراتا ہوں جس کی صبح میں قیامت برپا ہوگی، قسم بخدا! اس نے یہ بات کہہ کر گویا میری آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹادیے ،پھر آپ نے حاضرین سے فرمایا: اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے ایک دوسروں کو نصیحت کرتے رہا کروکہ نصیحت مسلمان کو فائدہ دیتی ہے۔ (ابن جوزی)
”مزاحم“حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کا غلام تھا، جس پر آپ انتہائی اعتماد فرماتے تھے، اوراس اعتماد کی بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ غلامانہ چابلوسی اورجی حضوری کی بجائے ہر موقع پر آپ کو نہایت صائب مشورہ دیاکرتا،اورآپ کو ہمیشہ حقائق سے مطلع کیا کرتا، آپ کے فرزند عزیز عبدالملک اورآپ کے بھائی سہیل بن عبدالعزیز بھی ایسے ہی خصائل کے حامل تھے ، اتفاق یہ ہو اکہ یہ تینوں ہی یکے بعد دیگرے داعئی اجل کو لبیک کہہ گئے، ایک شامی نے آپ سے کہا:امیرالمومنین کو بیٹے کی وفات کا صدمہ پہنچا ،واللہ میںنے کوئی بیٹا ایسا نہیں دیکھا جو باپ کا اتنافرمانبردار اورخدمت گزارہو، آپ نے اپنے بھائی کا صدمہ برداشت کیا،واللہ میںنے کوئی بھائی ایسا نہیں دیکھا جو اس سے بڑھ کر اپنے بھائی کاخیر خواہ اورنفع رساں ہو، آپ نے فرمایا:تم نے مزاحم کا ذکر نہیں کیا،وہ میرے نزدیک ان دونوں سے کم رتبہ نہیں رکھتا تھا، اے مزاحم! اللہ تم پر رحم کرے ، تم نے میری بہت سی دنیوی فکروں سے کفایت کی اورآخرت کے معاملے میں تم میرے بہترین وزیر تھے۔(ابن عبدالحکم)

ای پیپر-دی نیشن