• news

سینٹ میں انوکھی ٹریڈنگ مفاہمتی سیاست اور مخصوص نشستیں

یہ میں نے سیاستدانوں کے لئے نہیں کہا ہے۔ ان کے ایک سینئر ساتھی یعنی سیاستدان سابق سنیٹر چودھری شجاعت نے کہا ہے اب وہ ہمیشہ کی طرح یہ نہ کہیں کہ میڈیا خواہ مخواہ ان کے پیچھے پڑ گیا ہے۔ چودھری صاحب نے دوبارہ الیکشن لڑنے سے انکار کیا ہے۔ حالانکہ وہ کھوتا ٹریڈنگ آسانی سے کر سکتے ہیں۔ میری گذارش چودھری شجاعت سے ہے کہ وہ ہتھ ہولا رکھیں۔ میرا خیال ہے کہ خچر ٹریڈنگ مناسب بات ہے۔  لوگ یعنی سیاستدان تو اپنے مفاد کے لئے جانور کو بھی باپ بنا لیتے ہیں۔ تاہم گدھا ایک فرماں بردار جانور ہے۔ گدھا گاڑی غریبوں کے کام بھی آتی ہے۔ انوکھی ٹریڈنگ تو بہت زیادہ امیر کبیر کے علاوہ امیر مڈل کلاس کے لوگ بھی کر سکتے ہیں مگر یہاں تو کروڑوں کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ ہمیں شرم آ رہی ہے کہ ہمارے ووٹ سے بنے ہوئے ہمارے نمائندے بکائو مال ہیں۔ پیسوں کی ضرورت کسے نہیں ہوتی مگر کوئی اپنی عزت اپنا ضمیر اپنی ماں اس کے لئے نہیں بیچ دیتا۔ کسی دوست نے کہا کہ یہ تو کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں اور اہلکاروں سے بھی زیادہ آسان مال ہیں۔
اصل ہارس ٹریڈنگ یا انوکھی ٹریڈنگ تو پارٹی مالکان کرتے ہیں کہ وہ کسی ایسے کو ٹکٹ نہیں دیتے جو قوت خرید نہ رکھتا ہو۔ اس لئے سینٹ میں اور اسمبلیوں میں انڈر میٹرک یا جعلی ڈگری والے ارب پتی کاروباری اور کرپٹ لوگ ہی ہوتے ہیں۔ جعلی ڈگری بھی خریدی جاتی ہے۔ سیاستدانوں کو کئی جعلی ڈگری والوں کو عدالت سے نااہلی کے بعد بھی شرم نہیں جمشید دستی جیسے لوگ عدالت سے معافی مانگ کر دوبارہ منتخب ہو کے آ جاتے ہیں۔ ووٹ دینے والے بھی انوکھی ٹریڈنگ میں شریک ہیں۔ کئی لوگ ایک وقت کے کھانے کے لئے اپنا ووٹ یعنی اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں۔ پیسے کی سیاست یعنی جمہوریت نے پاکستان کو برباد کر دیا ہے۔ پاکستان کے اربوں ڈالر بیرون ملک مختلف لوگوں اور سیاستدانوں کے اکائونٹس میں پڑے ہوئے ہیں۔ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ پیسے کی سیاست کس نے شروع کی؟ اس کے بعد ہارس ٹریڈنگ سے بچنے کے لئے چھانگا مانگا، مری اور میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں اپنے ممبران کو یرغمال بنایا گیا۔
اس کے باوجود ن لیگ کے دو ممبران کو خرید کر بقول جاوید صدیق اپنے خلاف بے نظیر بھٹو نے تحریک عدم اعتماد ناکام بنا دی۔ ایسے ناقابل اعتبار لالچی کرپٹ لوگوں کو ٹکٹ دے کے ممبر اسمبلی ہی کیوں بنوایا جاتا ہے؟ بکنے والے دو ممبر اس کے بعد بھی ن لیگ سے ٹکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے۔ یہ لوگ کیا ہیں۔ ماروی میمن جنرل مشرف اور چودھری پرویز الٰہی کی ممبر اسمبلی رہی اور اب نواز شریف کی ممبر اسمبلی ہے۔
عورتوں کی مخصوص نشستوں کی طرح سینٹ کی نشستیں بھی بانٹ لی جائیں۔ اپنے اپنے ممبران صوبائی اسمبلی کی تعداد کے مطابق ہر پارٹی کو سینٹ میں بھی نمائندگی مل جائے۔ اللہ اللہ خیرصلا۔ پھر پارٹی مالکان کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ٹکٹ کے لئے کروڑوں کی بجائے اربوں روپے ’’پارٹی فنڈ‘‘ میں لے لئے جائیں گے۔
اس آئینی ترمیم پر حضرت مولانا اور حضرت زرداری کو اعتراض نہ ہو گا؟ جے یو آئی اتحادی جماعت ہے تو پیپلز پارٹی اتحادی اور امدادی اپوزیشن ہے۔ بلکہ زرداری سیاست کے مطابق مفاہمتی اپوزیشن ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اس معاملے میں بھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی بلکہ نواز شریف اور زرداری کے درمیان کوئی مفاہمت وغیرہ نہ ہو اور حضرت مولانا حکومت سے الگ نہیں ہوتے تو پھر یہ کیا سیاست ہے؟ زرداری سیاست کی طرح مولانا سیاست کی اصطلاح بھی پاکستانی جمہوریت میں قائم ہونا چاہئے۔
کامیاب زرداری سیاست کا ایک کرشمہ دیکھیں کہ کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے دو آدمی بلامقابلہ سنیٹر منتخب ہو چکے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اور پیپلز پارٹی نے ایک دوسرے کے لیڈروں کو کیا کیا نہیں کہا۔ پھر وہ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ اس میں کمال حضرت زرداری کا ہے کہ الطاف بھائی کا بھی اور کچھ کمال رحمان ملک کا بھی ہے جو شاید اسی مقصد کے لئے ’’زرداری سیاست‘‘ میں آئے ہیں۔ مگر وہ بہرحال قائم علی شاہ اور خورشید شاہ سے بہتر ہیں؟ حضرت زرداری کے دوست ذوالفقار مرزا نے رحمن ملک کے لئے جو ’’شاندار‘‘ خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اس کے لئے رحمن ملک نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ بڑے بھائی ہیں۔ اثرچوہان کے بقول ایک پارٹی لیڈر نے اپنے ممبران اسمبلی کے لئے کہا کہ آج تو ’’عجب کھوتوں‘‘ سے پالا پڑا ہے۔ تو ایک دوست نے مسکراتے ہوئے کہا کہ اسی لئے آپ ان سے خطاب کرتے ہوئے انہیں میرے بھائیو اور میری بہنو کہہ رہے تھے۔
نواز شریف نے تین سندھی دوستوں کو پنجاب سے ٹکٹ دیا ہے کہ وہ منتخب ہو جائیں۔ اور نجانے کیوں اچھے دوست اور پارلیمنٹرین پنجاب ظفر علی شاہ کو سندھ سے ٹکٹ دیا ہے؟ یہ ٹکٹ شاہ صاحب نے واپس کر دیا  ہے۔ میں اس پر بھی حیران ہوں کہ انہوں نے ماروی میمن کو کروڑوں روپے کے محکمے بے نظیر انکم سپورٹ کا سربراہ بنا دیا ہے تو لوگوں کو مریم نواز پر کیوں اعتراض تھا؟ اسے سینٹ کا ٹکٹ ہی دے دیا جاتا۔ وہ ماروی میمن سے کروڑ درجے بہتر خاتون ہے۔ وقار اور اعتبار کی ایک مثال اس نے قائم کی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ہارس ٹریڈنگ نہ کرتی اور منتخب بھی ہو جاتی۔ وہ سینٹ میں موجود بہت لوگوں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ اس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ وزیراعظم کی بیٹی ہے۔ وزیراعظم کے سمدھی وزیر خزانہ ہو سکتے ہیں جبکہ وہ بھی وزیراعظم کی ایک بیٹی کے سسر ہیں۔ اور صرف یہی ان کی کوالیفیکیشن ہے۔ کوئی بتائے کہ عابد شیر علی میں وزیراعظم کے ساتھ رشتہ داری کے علاوہ کیا اہلیت ہے؟ سینٹ میں موجود لوگ کسی امیر کبیر اور کرپٹ سیاستدان کے بیٹے وغیرہ ہیں۔ موروثی سیاست کسی اہل رشتہ دار کو نظرانداز کرنے کا نام نہیں ہے۔ صرف رشتہ داری کی وجہ سے سیاست میں بے انصافی اور زیادتی کا نام موروثی سیاست ہے۔ جائز معاملے میں خوف زدہ اور ضرورت سے زیادہ محتاط ہونے میں بھی خرابی ہے۔
یہ بھی موروثی سیاست ہے کہ عمران خان نے کھرب پتی جہانگیر ترین کو سینٹ کا ٹکٹ دیا ہے؟ امیر کبیر ہونا بھی ایک رشتہ داری ہے جبکہ غریب کو کوئی رشتہ دار بھی نہیں سمجھتا۔ جہانگیر ترین عمران کے تمام اخراجات کے لئے ذمہ دار ہے تو علیم خان کا کیا قصور ہے؟ اس بار الطاف حسین نے بھی ایم کیو ایم کی طرف سے کھرب پتی کو ٹکٹ دیا ہے؟ حضرت زرداری نے خدمت کے صلے میں ڈاکٹر قیوم سومرو کو سنیٹر بنوایا ہے۔ اب وہ بھی کروڑ پتی ہے۔ اسے ڈاکٹری بھی بھول گئی ہے۔ اسمبلیوں میں تو کوئی سکالر ادیب شاعر نہیں جا سکتا۔ سینٹ میں تو جا سکتا ہے۔ برطانیہ میں ایوان بالا میں نامزدگی ہوتی ہے اور کوئی ایک بھی نالائق یا غیرنمائندہ شخص سینٹ میں نہیں ہے۔ وہاں پاکستانی نژاد بھی نامزد ہوتے ہیں۔ لارڈ نذیر کے علاوہ سعیدہ وارثی بھی ہے جس نے فلسطین کے مظلوم بچوں کے لئے اپنی حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف پر وزارت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ پاکستان میں کوئی ایسی مثال ہے۔


ای پیپر-دی نیشن