2014: اسلام آباد میں 8 بم دھماکے، اصل مجرم نہ پکڑے جا سکے، پولیس سے رپورٹ طلب
اسلام آباد (آن لائن) وفاقی دارالحکومت میں گزشتہ ایک سال کے دوران 8 دہشت گرد حملے کئے گئے جن کے نتیجے میں 40 افراد لقمہ¿ اجل بنے اور 191سے زائد زخمی ہوئے، پولیس اور رینجرز کی مشترکہ گشت اور سرچ آپریشن کے باوجود اصل مجرموں تک نہیں پہنچا جاسکا۔ برطانیہ اور امریکہ کے تعاون سے پاکستان نے بم ڈسپوز کرنے کےلئے جدید ٹیکنالوجی سے لیس 12ریموٹ کنٹرول روبوٹ‘ بم ڈسپوزل یونیفارمز اور سکینرز بھی حاصل کئے تاہم امام بارگاہ پر ہونے والے دھماکے کے بعد ملنے والی خودکش جیکٹ کو بم ڈسپوزل سکواڈ ناکارہ بنانے میں ناکام رہا جس کو آرمی کے سپیشل بم ڈسپوزل سکواڈ نے ناکارہ بنایا۔ رپورٹ کے مطابق 3 مارچ 2014ءکو اسلام آباد ایف ایٹ کچہری میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت احمد اعوان کی عدالت کے باہر فائرنگ اور خودکش حملے کے نتیجے میں ایڈیشنل سیشن جج اور 6 وکلاءسمیت 12 افراد جاں بحق اور 25 زخمی ہو ئے، دوسرا دھماکہ 19 اپریل 2014ءکو آئی الیون کی سبزی و فروٹ منڈی میں ہوا جس میں 24 افراد جاں بحق اور 116 زخمی ہوئے۔ تیسرا دھماکہ 20 جون 2014ءکو پنڈوریاں دربار پر جمعہ کے روز محفل قوالی کے اختتام کے بعد کیا گیا جس میں 50 افراد زخمی ہوئے تھے۔ چوتھا اور پانچواں دھماکہ جی نائن مرکز اور سپر مارکیٹ میں کیا گیا جس میں ایک سکیورٹی گارڈ جاں بحق ہوا اور ایک شخص زخمی ہوا تھا،چھٹا اور ساتواں دھماکہ 30 نومبر کو تحریک انصاف کے جلسے کے اختتام پر فیض آباد اور بہارہ کہو کے علاقوں میں کیا گیا جس کے نتیجے میں 4 میڈیا ارکان زخمی ہوئے تھے۔ آٹھواں دھماکہ قصر سکینہ امام بارگاہ میں اس وقت کیا گیا جب نماز مغرب ادا کی جا رہی تھی حملے کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہوئے۔ معلومات کے مطابق وفاقی پولیس کے زیادہ تر افسران اپنے پاس ڈبل چارج رکھنے پر اپنی ڈیوٹی دینے میں ناکام ہیں۔ یہ افسران اپنی نوکریاں بچانے کیلئے وزارت کے طواف کرنے میں مصروف ہیں۔ وزارت داخلہ نے پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی۔