’’کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے‘‘ پنجاب اسمبلی میں پھر مطالبہ
لاہور(خصوصی رپورٹر+خصوصی نامہ نگار+کامرس رپورٹر+سپورٹس رپورٹر)پنجاب اسمبلی میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا مطالبہ ایک بار پھر دہرایا گیا ہے اور اس کی تعمیر کاشتکاروں کیلئے ناگزیر قرار دی گئی ہے اور اسکے ساتھ ساتھ بھارت سے دریائوں میں بند ہونیوالے پانی کی بحالی کی کوشش کا مطالبہ کیا گیا ہے، یہ مطالبہ زراعت اور گنے کے کاشتکاروں کو درپیش مسائل پر عام بحث کے دوران کیا گیا ہے، بحث کے وقت ایوان میں اپوزیشن کا کوئی رکن موجود نہیں تھا جبکہ ایوان میں موجود خواتین ارکان خوش گپیوں میں مصروف رہیں، بحث میں حصہ لیتے ہوئے حکومتی رکن میاں محمد رفیق نے مختلف امور پر بحث نہ ہونے کی شکایت کی ، ان کا کہنا تھا کہ محض اسمبلی کے 100دن کے آئینی تقاضے پورے کرنے کیلئے اجلاس کیا جا رہا ہے، کاشتکاروں کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نہری پانی کے بغیر کاشتکاری ممکن نہیں ہے مگر ہماری نہروں میں پانی نہیں ہے، بھارت نے دریائوں کا پانی روک رکھا ہے، یہ پانی حاصل کیا جائے، اسی طرح کالاباغ ڈیم بنانے کی تحریک شروع کی جائے، پیداوار اخراجات پورے کرنے کیلئے کاشتکاروں کو اجناس کی امدادی قیمت دی جائے، حکومتی رکن امجد علی جاوید نے بھی کاشتکاروں کو سہولتیں فراہم کرنے پر زور دیا اور کہا کہ شمسی ٹیوب ویل لگانے کے دعوے کئے گئے تھے مگر عملدرآمد نہیں ہوا، حکومتی رکن عبدالرئوف مغل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کاشتکاروں کی معاونت نہیں کی جا رہی جبکہ حکومت کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتوں میں 50 فیصد کمی ہوئی مگر عوام کو اسکا اثر 35فیصد تک ملا ہے، پلاسٹک سے لیکر لوہے تک ہر چیز کی قیمت میں کمی ہو رہی ہے مگر کاشتکاروں کے اخراجات میں کوئی فرق نہیں پڑا، ملک جاوید اعوان نے حکومت کے اس دعوے کی نفی کی کہ ملزمالکان گنے کے کاشتکاروں کو ادائیگی کررہے ہیں، انہوں نے محکمہ زراعت پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ محکمہ زراعت اپنی کارکردگی کی فرضی بریفنگ دیتا ہے، الیاس چنیوٹی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ آلو کی ایکسپورٹ پر پابندی ختم کرنے کا مطالبہ کیا، اقلیتی رکن رمیش سنگھ اروڑا نے کہا کہ بھارت کے ساتھ مل کر ایسا طریق کار اختیار کرنا چاہیے کہ پانی ذخیرہ کرلیا جائے اور جب ضرورت پڑے تو اسے استعمال میں لایا جائے ، انیس قریشی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال چاول کی فصل ڈھائی ماہ فی من کے نرخ پر فروخت کی گئی تھی مگر رواں سال ڈیڑھ ہزار روپے تک فروخت ہو رہی ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری ذمہ داری وزارتوں نے غفلت برتی، یہ لاپرواہی وفاقی اور صوبے کی طرف سے کی گئی ، اس کے نتیجے میں میں کاشتکار کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ انیس قریشی کا کہنا تھا کہ اگر وفاقی حکومت چاول کی فصل آنے سے پہلے بیرونی منڈیوں میں معاہدے کرتی تو کاشتکار کو اتنا نقصان نہ ہوتا، حکومتی رکن نگہت شیخ نے کہا کہ آبپاشی کے لئے کھالوں کی تعمیر حکومت کی ذمہ داری ہونا چاہیے۔ حکومتی رکن شیخ علائوالدین نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اگر آٹھ دس سال کے مرحلے میں اس ایوان میں ارکان کی تقاریر دیکھ لیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے نتیجے میں کسی ایک مل مالکان کا کچھ نہیں بگڑا، بحث میں حصہ لیتے ہوئے میاں ثاقب خورشید نے کاشتکاری کا تجربہ رکھنے والے ارکان اسمبلی سے زرعی پالیسی میں مشاورت کی تجویز پیش کی، بحث میں حصہ لیتے ہوئے چودھری محمد اقبال نے کہا کہ وفاقی حکومت امدادی قیمت مقرر تو کردی جاتی ہے مگر کاشتکاروں کو ملتی نہیں، ملک ارشد نے کہا کہ مڈل مین کا کردار ختم کیا جانا چاہیے یہ اصل رقم کہا جاتا ہے گنے کے کاشتکاروں کے مسائل کے حوالے سے عام بحث سمیٹے ہوئے صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ زراعت اور گنے کی قیمتوں کے اہم مسئلہ پر بحث کے دوران اپوزیشن کا کوئی رکن اسمبلی موجود نہیں ہے حالانکہ اپوزیشن کے کہنے پر اجلاس میں یہ بحث رکھی گئی اور چوتھی مرتبہ اسے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا جمعہ کے دن بھی میں اور صوبائی وزیر زراعت موجود تھے جس پر چیئرمین آف پینل راحیلہ خادم حسین نے کہا کہ اپوزیشن نے بہت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے ایوان کو آگاہ کیا ہے کہ گنے کے کاشتکاروں کو انکی فصل کی مد میں شوگر ملوں سے ادائیگیوں کو یقینی بنایا جارہا ہے ،2013-14ء میں گنے کے کاشتکاروں کو 99فیصد سے زائد ادائیگیاں کی گئیں جبکہ رواں سیزن میں بھی85فیصد کے لگ بھگ ادائیگیاں کی جا چکی ہیں ،ڈاکٹر فرخ جاوید نے اپنے محکمے سے متعلق بحث کو سمیٹے ہوئے کہا کہ پنجاب کے کاشتکار کو سہولیات کی فراہمی اور اسکی فضل کی صحیح قیمت کی ادائیگی اولین ترجیح ہے ، پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت دو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ تیس منٹ کی تاخیر سے قائمقام اسپیکر سردار شیر علی گورچانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔ صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے بحث کو سمیٹے ہوئے کہا کہ حکومت نے 180روپے فی من گنے کا ریٹ مقرر کیا تھا اور جہاں پر یہ قیمت نہیں دی گئی ہم نے اس کے خلاف ایکشن لیا ۔یہ 100ارب روپے کا لین دین ہے جہاں جہاں مشکلات سامنے آئیں حکومت نے انہیں دور کیا ۔ وزیر خوراک نے انکشاف کیا کہ سندھ میں جو چھ لاکھ ٹن گندم درآمد ہوئی یہ سندھ کے نجی شعبے نے امپورٹ کی ہم نے بروقت اسکی نشاندہی کی اور خود جا کر وفاق کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا جس پر ایکشن لیکر گندم کی درآمد بند کی گئی ۔ڈاکٹر فرخ جاوید نے بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ اس ایوان نے آج پنجاب کے کسانوں کا حق ادا کر دیا ہے ۔ آلو کی بمپر فصل ہوئی ہے اور اندازہ ہے کہ یہ دس لاکھ ٹن زیادہ ہو گی ۔ ایوان میں ارکان نے بھارت کے اعدادوشمار بڑے جارحانہ انداز میں بیان کئے ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ وہ غلط ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی ہدایت پر ہر سال کسانوں کو 22ارب بجلی کی سبسڈی دی جارہی ہے او ران کو 10.35روپے فلیٹ ریٹ یونٹ پر بجلی فراہم کی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی میں حکومتی رکن میاں طاہر نے حکومت کی میرٹ پالیسی کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اور انکشاف کیا ہے کہ قرعہ اندازی کے تحت دیے جانے والے لینڈ لیول لیزر کی قرعہ اندازی میں کرپشن ہوئی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ خود انہوں نے ایک لاکھ روپے رشوت دیکر لینڈ لیول لیزر سے حاصل کیا ہے جو ان کے ڈیرے پر کھڑا ہے۔ قائم مقام سپیکر نے اس معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور وزیر زراعت کو ہدایت کی ہے کہ انکوائری رپورٹ ایوان میں پیش کریں۔ وقفہ سوالات کے دوران میاں طاہر نے قرعہ اندازی کی شفافیت پر سوال اٹھایا اور کہا کہ قرعہ اندازی کے بجائے چہیتوں کو نوازا جا رہا ہے۔ محکمہ زراعت کے افسر عام لوگوں کے بجائے خواص کی پرچیاں ہی قرعہ اندازی میں شامل کرتے ہیں سوا دو لاکھ روپے سبسڈی والا لیزر انہوں نے محکمے کے اہلکار کو ایک لاکھ روپے رشوت دے کر حاصل کیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ لیزر ان کے ڈیرے پر کھڑا ہے جس پر وزیر زراعت نے کہا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ایک ایم پی اے نے رشوت دی۔ محکمے کے اہلکار ایک ایم پی اے سے ایک لاکھ روپے رشوت لیتے ہوئے ذرا شرم نہیں آئی۔ سپیکر سردار شیر علی گورجانی نے بحث سمیٹتے ہوئے وزیر زراعت کو ہدایت کی وہ اس معاملے کی فوری طور پر انکوائری کرائیں اور اگلے سیشن میں اس کی رپورٹ بھی ایوان میں پیش کریں۔ علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی نے سابق وزیر اور امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر بیگم سیدہ عابدہ حسین کی طرف سے مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کے بارے میں دئیے جانے والے ریمارکس کیخلاف استحقاق کی تحریک استحقاق کمیٹی کے سپرد کردی ہے، یہ تحریک استحقاق حکومتی رکن راحیلہ خادم نے پیش کی تھی۔