آزادی سلب کی جا سکتی ہے نہ حکومت سمیت کسی کو قانون ہاتھ میں لینے دیں گے: اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد(صباح نیوز+بی بی سی اردو) اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ ممبئی حملوں کی سازش تیار کرنے کے مقدمے میں گرفتار ذکی الرحمنٰ لکھوی کے خلاف نیا مقدمہ درج کرنے سے پہلے عدالت کو آگاہ کرے۔ عدالت نے یہ حکم لکھوی کی نظربندی کے خلاف دائر درخواست کی سماعت پر دیا ہے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ حکومت کو ملزم کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے نہ روکا جائے جس پر عدالت نے کہا کہ کسی بھی شہری کی آزادی کو سلب نہیں کیا جاسکتا اور عدالت حکومت سمیت کسی کو بھی قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دے گی۔ ملزم کے وکیل نے کہا کہ وفاقی حکومت غیر ملکی دباؤ اور بالخصوص بھارت کے دبائو میں آ کر اْن کے موکل کو خدشہ نقص امن کے تحت جیل میں رکھے ہوئے ہے۔ استغاثہ ابھی تک یہ ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے کہ رہائی کے بعد لکھوی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ محض مفروضوں پر کسی کی آزادی کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی طرف سے ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا ہے کہ لکھوی کے خلاف ممبئی حملوں کی سازش تیار کرنے اور ایک شخص کے اغوا کے سوا پورے پاکستان میں اور کوئی مقدمہ نہیں ہے تاہم اْنہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت مزید شواہد آنے پر حکومت کو لکھوی کے خلاف مزید مقدمات درج کرنے سے نہ روکے۔ عدالت نے یہ استدعا قبول نہیں کی اور کہا کہ کسی کے خلاف غلط مقدمات درج کرنا بھی خلاف قانون ہے۔ عدالت نے ملزم کی نظر بندی کے احکامات جاری کرنے پر وفاقی حکومت اور اسلام آباد کے ضلعی مجسٹریٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے پانچ مارچ کو جواب طلب کرلیا ہے۔ علاوہ ازیں بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے لکھوی اڈیالہ جیل میں پرسکون اور آرام دہ زندگی گزار رہے ہیں۔ بی بی سی نے حکومت کی جانب سے لکھوی کی دوبارہ حراست کو مشکوک قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جیل عہدیدار کا کہنا ہے کہ لکھوی سے مہمان ہفتے کے سات روز میں کسی بھی وقت ان سے ملاقات کرسکتے ہیں۔ لکھوی کو حراست کے دوران ٹیلی ویژن، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت مہیا ہے۔