• news

سینٹ: افتخار چودھری کی پنشن ، مراعات تفصیلات پیش نہ کرنے پر اٹارنی جنرل آج طلب

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز + نیوز ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی پنشن اور دیگر مراعات کی تفصیلات پیش نہ کرنے پر اٹارنی جنرل کو آج (بدھ کو) ایوان میں طلب کر لیا۔ اپوزیشن نے پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹ میں ممکنہ تبدیلی کیخلاف اجلاس سے پھر واک آئوٹ کیا۔ قبل ازیں اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سعید غنی نے کہا کہ 1985ء سے اب تک کے تمام ریٹائرڈ چیف جسٹس صاحبان کے نام، مراعات کی تفصیلات ایوان میں پیش کی جائیں جبکہ چیئرمین سینٹ نے ریمارکس دیئے کہ کیا سپریم کورٹ کو معلومات فراہم نہ کرنے پر استثنیٰ حاصل ہے؟ وفاقی وزیر قانون پرویز رشید نے کہا کہ ایوان بالا قانونی ماہرین کو ایوان میں طلب کرسکتا ہے اور ان سے آئینی رابطے کیلئے تجاویز لے سکتا ہے۔ چیئرمین سینٹ نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ 6 مرتبہ سپریم کورٹ کو خط لکھ چکے کہ سابق چیف جسٹس کی پنشن اور مراعات سے متعلق ایوان بالا کو معلومات فراہم کی جائیں مگر ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں؟ جس پر پرویز رشید نے کہا کہ حکومت کو اٹارنی جنرل کو طلب کرنے اور آئینی رائے لینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ سابق چیف جسٹس کی پنشن اور مراعات سے متعلق رپورٹ ایوان میں پیش کردی گئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت پر افتخار محمد چودھری کو مراعات دی جا رہی ہیں، 6 ہزار سی سی بلٹ پروف گاڑی، پٹرول اور دیکھ بھال کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں۔ جس پر چیئرمین سینٹ نیئر حسین بخاری نے بابر اعوان‘ رفیق رجوانہ‘ کاظم خان سے رائے لیتے ہوئے کہا کہ کیا اٹارنی جنرل کو طلب کیا جا سکتا ہے اس پر بابر اعوان نے کہا کہ کوئی بھی ادارہ جو حکومت سے ریاست کی مد میں فنڈز وصول کرتا ہے وہ پارلیمنٹ کے سامنے جوابدہ ہے۔ حتیٰ کہ ملک کا وزیراعظم بھی پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ایوان اگر چاہے تو کسی کو بھی طلب کر سکتا ہے۔ سینیٹر رفیق رجوانہ اور کاظم خان نے کہا کہ پارلیمنٹ سب سے سپریم ادارہ ہے۔ وزیر قانون پرویز رشید نے ایوان بالا میں ریٹائرڈ چیف جسٹسز کی فہرست پیش کرتے ہوئے کہا کہ 1985ء سے اب تک ریٹائر ہونے والے چیف جسٹسز کی تعداد 12 ہے۔ اے این پی کے سینیٹر زاہد خان نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ کو تفصیلات دینے سے متعلق استثنیٰ حاصل ہے۔ جس پر چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے جواب لے کر ایوان کو آگاہ کیا جائے۔ دریں اثنا اے پی پی کے مطابق وقفہ سوالات کے دوران کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی کے سوال پر وزیر مملکت پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ سابق حکومت نے فاٹا کے نوجوانوں کا معیار زندگی بڑھانے میں انہیں ملک کے دیگر علاقوں کے عوام کے برابر لانے کے لئے ایک پروگرام شروع کیا ہے۔ ہر سال دس ہزار لڑکوں اور لڑکیوں کو مختلف قسم کی مہارتیں سکھائی جائیں گی کہ وہ اپنا روزگار کمانے کے قابل ہو سکیں۔ اب تک 9994 نوجوانوں کو تربیت دیدی گئی۔ سنیٹر ہدایت اللہ کے سوال پر شیخ آفتاب احمد نے بتایا کہ عسکریت پسندی کی وجہ سے بے گھر ہونیوالے ایک لاکھ 54 ہزار خاندانوں کو رواں سال واپس بھیجا جائے گا، ان میں جنوبی وزیرستان بھی شامل ہے۔ واپس جانے والے خاندانوں کو 25 ہزار فی خاندان دیئے جائیں گے۔ وزیر مملکت انجینئر بلیغ الرحمان نے بتایا کہ سکولوں کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے‘ بڑے ہوٹلوں میں باہر کے ممالک سے آکر لوگ ٹھہرتے ہیں اس لئے ان کی سکیورٹی کے لئے اقدامات کرنا پڑتے ہیں۔ اسلام آباد میں مختلف سیکٹرز کی گلیوں میں کنکریٹ کے بلاکس شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے رکھے گئے ہیں‘ سنیٹر پرویز رشید نے کہا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں گمراہ کن یا اخلاقی اقدار سے مطابقت نہ رکھنے والے اشتہارات کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ نے کہا ہے کہ انقلاب اور آزادی مارچ کے دوران کنٹینرز پر کھڑے ہوکر کئی افراد کے مرنے اور لاشیں غائب ہونے کے الزامات لگائے گئے‘ تین افراد کی ہلاکت ہوئی جن میں سے ایک ڈوب گیا تھا، دو زخمیوں کے بارے میں واضح نہیں کہ وہ کہاں سے ہسپتال لائے گئے کیونکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس شرکاء کو روکنے کے لئے کوئی ہتھیار نہیں تھا‘ سرکاری اداروں اور پولیس پر حملوں سمیت تمام واقعات کی ایک جامع ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ ایوان میں سٹیٹ بنک کی مالی سال 2014-15ء کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ اور 3 قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹیں پیش کر دی گئیں۔ چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف سینیٹر کاظم خان نے دستور پاکستان کے مختلف آرٹیکلز میں ترامیم بارے کمیٹی کی 2 رپورٹیں پیش کی۔ قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے چیئرمین حاجی غلام علی نے کمیٹی کی مارچ 2012ء سے 2015ء تک کے عرصہ کیلئے کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔

ای پیپر-دی نیشن