جَے جَے شنکر!
گذشتہ سال 11 مارچ کو رائے ونڈ میں وزیرِ اعظم کے فارم ہائوس میں فول پرُوف سکیورٹی کو ’’Fool‘‘ بنا کر ایک جنگلی بِلّے نے وزیرِاعظم کے لاکھوں روپے کے مور کو کھا لِیا تھا اور جب سکیورٹی کے 21 اہلکاروں نے اُس جنگلی بِلّے کو پکڑ لِیا تو وزیرِاعظم نے اُن کو تعریفی اَسناد عطا کی تھِیں۔ وہ جنگلی بِلّا اِس وقت چڑیا گھر میں ہے۔ یا جنابِ زرداری کی تحوِیل میں؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یاد رہے کہ جنابِ زرداری نے جنابِ وزیرِاعظم سے بار بار کہا تھا کہ ’’میاں صاحب! ایس بِلّے نُوں باہر نہ جان دینا!‘‘
وزیرِاعظم کے فارم ہائوس میں چوری؟
3 مارچ کو وزیرِاعظم کے فارم ہائوس کے مچھلی فارم سے بجلی کے دو ٹرانسفارمرز چوری ہو گئے اور اُن کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی فلور مِل سے بھی ایک ٹرانسفارمر چوری ہو گیا۔ کیپٹن (ر) صفدر صاحب تو حکومت میں نہیں ہیں لیکن وزیرِاعظم کے فارم ہائوس سے ٹرانسفارمر کی چوری کا معاملہ بہت سنگین ہے کہ 3 مارچ کو بھارتی سیکرٹری خارجہ شِری جَے شنکر بھی پاکستان میں تھے۔ وہ واپس جا کر شِری مودی جی اور بھارتی مِیڈیا سے کیا کہیں گے؟ ایس ایس پی رانا ایّاز سلیم نے کہا ہے کہ ’’بہت جلد چوروں کا سُراغ لگا کر ٹرانسفارمر برآمد کر لئے جائیں گے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ ’’بہت جلد چوروں کا سُراغ کیسے لگایا جائے گا؟ کیا دیوانِ حافظ سے فال نکال کر؟ یا وفاقی وزیرِ مذہبی امُور سے استخارہ کرنے کو کہا جائے گا؟ بہرحال یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ مارچ کا مہینہ وزیرِاعظم صاحب پر بھاری ہے۔
’’بے نظیر بھٹو قتل کیس کُھوہ کھاتے!‘‘
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کو 8 سال دو ماہ اور 6 دِن ہو گئے لیکن ابھی تک اُن کے قتل کے ملزموں/ مجرموں کو سزائیں نہیں دی جا سکِیں۔ راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ کِیڑی کی رفتار سے چل رہا ہے۔ کبھی گواہان پیش نہیں ہوتے اور کبھی سرکاری وکیل۔ چنانچہ عدالت کو بار بار مقدمے کی سماعت ملتوی کرنا پڑتی ہے۔ اِس مقدمہ میں مُدّعی چودھری محمد اسلم ہیں۔ (جن کا بیان ہے کہ مَیں 21 سال تک محترمہ بے نظیر بھٹو کا پروٹوکول آفیسر رہا ہُوں)۔ سوال یہ ہے کہ محترمہ کے مقدمۂ قتل میں جناب آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو خُود مُدّعی کیوں نہیں بنے؟
جناب آصف زرداری کے دورِ صدارت میں سینیٹر چودھری اعتزاز احسن اکثر کہا کرتے تھے کہ ’’اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا نہ دی گئی تو انتخابی مہم کے دَوران عوام خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکُن ہمارے گریبان پکڑیں گے۔‘‘ 11 مئی 2011ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی ’’سِندھ نہ ڈیسُوں‘‘ کی حد تک سُکڑ گئی۔‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک بانی رُکن ماہر تعلیمات میرے ایک لہوری دوست سیّد یوسف جعفری نے (جو پاکستان کے دَولخت ہونے کے بعد پارٹی چھوڑ کر سیاست سے بھی تائب ہو گئے تھے) مجھے کہا کہ ’’محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل کیس کُھوہ کھاتے۔‘‘ چلا گیا ہے اور اگر قیامت کے دِن محترمہ نے اپنے شوہرِ نامدار اور فرزندِ ارجمند کا گریبان پکڑ لِیا تو کون چھڑائے گا؟
جَے جَے شنکر!
بھارت کے سیکرٹری امورِ خارجہ شِری سُرامنیِم جَے شنکر تمام سارک ممالک کی یاترا کے لئے گھر سے نِکلے تھے تو پاکستان بھی آ گئے۔ اُن کا یہ کہنا فضُول سی بات تھی کہ ’’سارک مُلکوں کی سربراہی کانفرنس کا آئندہ میزبان پاکستان ہوگا۔‘‘ یہ بات تواہلِ پاکستان کو پہلے سے ہی معلوم تھی۔ 26 مئی 2014ء کو بھارت کے مُنتخب وزیرِاعظم شِری نریندر مودی کی تقریب حلفِ برداری میں وزیرِاعظم میاں نواز شریف اوردو تِین وزیروں کی شرکت، شِری مودی کی طرف سے میاں صاحب کی والدۂ محترمہ کے لئے شال کا تُحفہ اور جواباً میاں صاحب کی طر ف سے شِری مودی کی ماتا جی کے لئے سفید ساڑھی ایک لاحاصل مشق تھی کہ اُس کے بعد شِری مودی نے دونوں مُلکوں میں خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر بھی مذاکرات معطل کر دیئے تھے۔
شِری جَے شنکر کی اپنے پاکستانی ہم منصب اعزاز چودھری سے مُلاقات کافی تھی لیکن اُن سے وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی جناب طارق فاطمی اور مشِیر خارجہ جناب سرتاج عزیز اور پھر وزیرِاعظم نواز شریف کی مُلاقات سے یہ تاثر مِلا کہ گویا ’’کِیڑی کے گھر نارائن آ گیا ہو؟‘‘ نیوز چینلوں پر ’’مورا پِیا گھر آیا ٗ ہو لال نی‘‘ کے مناظر دیکھنے میں آئے لیکن یہ امر خُوش آئند ہے کہ ’’مہمانِ عزیز‘‘ کی مُلاقاتوں کے دوران چِیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی صدارت میں مُنعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد پیغام دِیا گیا کہ ’’پاکستان کی مسلّح افواج اپنے اندرونی اور بیرونی دُشمنوں سے غافل نہیں ہیں۔‘‘
اقوامِ مُتحدہ کی سلامتی کونسل سے کشمیریوں کو اپنے حقِ خُود ارادِیت کے ذریعے اپنے مُستقبل کا فیصلہ کرنے کی قرارداد منظور کروانے میں امریکہ پیش پیش تھا۔ لیکن بھارت نے اِن قرار دادوں پر عملدرآمد میں مُجرمانہ غفلت کی صدر اوباما نے ’’سلامتی کونسل کے مُجرم‘‘ بھارت کو سلامتی کونسل کا مُستقل رُکن بنانے کا اعلان کر کے ایک مُجرم کو اِنصاف کی کُرسی پر بٹھانے کا فیصلہ کر دِیا ہے۔ صدر اوباما کی ہدایت پر مودی جی نے میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کر کے گونگلواں تو مِٹّی لاہن دی کوشش‘‘ کی ہے۔ مجاہدِ تحریک پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی (مرحوم) نے بار بار لِکھا اور ’’ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور‘‘۔ میں اپنا یہ نُقطۂ نظر دُہرایا کہ ۔’’ہمیں اندر وطنِ عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی نگہبانی کے جذبات پیدا کرنے ہوں گے بلکہ اپنی صفوں میں موجود بھارت کے اُن شردھالُوئوں (عقیدت مندوں) پر بھی کڑی نظر رکھنا ہوگی جو مسئلہ کشمیر کو پسِ پُشت ڈال کر ہمارے اَزلی دُشمن بھارت سے دوستی اور تجارت کا راگ الاپ رہے ہیں۔‘‘
میاں نواز شریف نے کئی بار ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو پاکستان کی صدارت کا منصب پیش کِیا تو انہوں نے کہا کہ ’’میاں صاحب! تُسِیں میری صدارت دا بھار چُک نئیں سکو گے!‘‘ جناب ممنون حسین کی صدارت (بقول صدر عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد) ہلکی پھُلکی موسیقی ہے۔ موصُوف کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ ’’جب بھی بھارت سے آگرہ سربراہی کانفرنس‘‘ ہو تو انہیں بھجوایا جائے تاکہ انہیں اپنی جنم بھُومی پر ایستادہ تاج محل دیکھنے کا موقع مِلے۔ مَیں حیران ہُوں کہ شِری جے شنکر کی جناب ممنون حسین سے مُلاقات کیوں نہیں کرائی گئی؟ وہ تو بھارت کے صدر کوخیرسگالی کا منظوم پیغام بھی بھیج سکتے تھے!
مَیں نے پہلے بھی لِکھا تھا کہ ’’جو اینکر پرسنز اخبارات سے تربیت پا کر اور مہارت حاصل کر کے نیوز چینلوں تک پہنچے وہ صحیح اُردُو بولتے ہیں لیکن جو ڈائریکٹ بھرتی ہُوئے ہیں وہ ’’بے لگام اُردُو‘‘ بول کر نئی نسل کو بھی غلط اُردُو سِکھا رہے ہیں۔ ’’عوام مذکر ہے۔‘‘ لیکن وہ مؤنث بولتے ہیں۔ ’’عوام کھڑی ہے۔‘‘ عوام یہ بات برداشت نہیں کر سکتی۔‘‘ وغیرہ ٗ وغیرہ نہ صِرف کئی اِنگلش مِیڈیم اینکر پرسنز کہتے ہیں بلکہ اُن کی دیکھا دیکھی بعض سیاستدان بھی کوئی اُن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ’’سُبرامَنیم‘‘ ہِندُوئوں کی ذات ہے اور جَے(Jai) کا مطلب ہے’’فتح‘‘ اور شنکر تباہی اور بربادی کے دیوتا ’’شِوا‘‘ کا صفاتی نام ہے۔ بھارتی سیکرٹری خارجہ کے بزرگوں نے اُن کا نام سوچ سمجھ کر رکھا ہوگا۔ ہمارے کئی اینکر پرسنز اور تجزیہ کاروں نے انہیں جے (J) شنکر کہا۔ لیکن شِری جَے شنکر یہ کہہ کر چلے گئے۔ بقول شاعر ؎
’’آئے بھی وہ گئے بھی وہ، ختم فسانہ ہو گیا‘‘