• news

میانوالی کی ملالہ اور پنڈی کی فرخندہ شمیم

میں آج پنڈی کی شاعرہ اور افسانہ نگار فرخندہ شمیم کی بات کرنے والا ہوں اور کروں گا مگر اس سے پہلے میری نظر میرے شہر میانوالی کے حوالے سے ایک خبر پر پڑی ہے۔ ”سکول جانے سے روکنے پر اپنے والد کے خلاف ایک لڑکی مشال نے اور اس کی کلاس فیلوز نے احتجاج کیا۔ مشال کے والد اسماعیل چاڑو کے جانب سے قتل کی دھمکیاں دینے اور سکول جانے کی اجازت نہ دینے پر پریس کلب کے باہر زبردست احتجاج کیا۔ پولیس والے بچی کو دھکے دیتے اور فوری طور پر بھاگ جانے کا کہتے رہے۔ اس میں میانوالی پولیس کا کیا ”مفاد“ ہے۔ پنجاب پولیس ہر کہیں ”ایسی“ ہی ہے۔ ننھی منی بچیوں کا احتجاج تو انجوائے کرنے کی سرگرمی بھی ہے مگر پولیس شاید لوگوں کو ذلیل و خوار کر کے ہی خوش ہوتی ہے۔ میانوالی پولیس کے لئے مجھ تک بہت شکایات بھی پہنچ رہی ہیں۔ مگر اس حوالے سے کبھی کبھی اچھی خبریں بھی آتی ہیں۔ 

خوشی یہ ہوئی کہ اب احتجاج کی رسم چل نکلی ہے اور سب احتجاج پریس کلب کے سامنے ہوتے ہیں۔ یہ صحافت کے لئے ایک اعزاز کی بات ہے۔ مگر ناخوشی یہ بھی ہے کہ ہماری انتظامیہ جائز مطالبات بھی اس وقت تک نہیں مانتی جب تک لوگ احتجاج نہ کریں۔ مظاہرہ نہ کریں بلکہ دھرنا نہ دیں۔ حکومت کے خلاف نعرے نہ لگائیں۔ بسوں اور دفتروں کے شیشے نہ توڑیں اور لاٹھیاں نہ کھائیں۔ یہ ایک بدانتظامی ہے۔ اگر فوری طور پر بات مان لی جائے تو کیا حرج ہے۔ اس کے بعد مطالبہ مان لیا جاتا ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ مطالبات جائز تھے۔ ہماری حکومتوں اور انتظامیہ کو اس معاملہ میں سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔
میانوالی کی پولیس کے شیر جوانوں کو شرم کرنا چاہئے کہ بچیاں ان سے ڈری نہیں تھیں اور سڑک پر بیٹھ گئیں۔ ڈریں اس وقت سے جو آنے والا ہے۔ جب لوگ پولیس اورانتظامیہ سے ڈرنا چھوڑ دیں گے۔ بچیوں نے اس کے بعد نعرے بازی شروع کر دی۔ بہت شور شرابہ ہوا۔ راہ چلتے لوگ اکھٹے ہو گئے۔ اور باقاعدہ ایک ہنگامہ ہو گیا۔ تو پولیس والے ”خوش“ ہو گئے؟
مشال نے بتایا کہ میرے والد نے میری ماں اور میری بہن کو قتل کیا ہے۔ یہ ایک سوال میانوالی پولیس کے لئے ہے کہ وہ ایک قاتل کو کیفر کردار تک نہ پہنچا سکے اور اب اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ نجانے اسماعیل چاڑو کا کون ”دوست“ پولیس والوں کے اندر چھپا ہوا ہے؟ مشال نے بتایا کہ اب میرا والد میرے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ تم نے سکول نہیں جانا ورنہ تمہیں بھی قتل کر دیا جائے گا۔ اب اس کے بعد قاتل باپ کا غصہ زیادہ بڑھ گیا ہو گا۔ اب مشال کی حفاظت میانوالی پولیس کی ذمہ داری ہے۔ ڈی پی او میانوالی مجاہد اکبر اس تلخ حقیقت پر غور کریں اور مناسب انتظام کریں؟ سنا ہے کہ مجاہد صاحب نام کے مجاہد نہیں ہیں بلکہ اچھا ماحول بنانے کے لئے ”سرکاری“ جہاد کر رہے ہیں۔ میں اگر میانوالی ہوتا تو میں ان بچیوں کے ساتھ سڑک پر بیٹھ کر احتجاج کرتا۔ میں اب بھی اس صورتحال پر مسلسل نگاہ رکھوں گا۔ یہ میانوالی پولیس کا امتحان ہے۔
آئی جی پنجاب پولیس مشتاق سکھیرا سے خاص طور پر گذارش ہے کہ وہ اس واردات کا نوٹس لیں۔ پنجاب پولیس کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز نبیلہ غضنفر پولیس کی ایک بہترین وکیل ہیں اور ہمارے شعبہ صحافت کے ساتھ بھی بہت اچھے مراسم رکھتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ پولیس والوں کو لوگوں اور مظلوموں کے ساتھ مہربان اور مربوط کیا جائے۔ وہ مشتاق سکھیرا کے لئے بھی بہت اچھے اقدامات کی توقع رکھتی ہیں۔
آخر میں مشال کا یہ جملہ بہت بامعنی اور معنی خیز ہے۔ ”مجھے بھی قوم کی بیٹی ملالہ کی طرح انصاف دیا جائے۔“ ملالہ یوسف زئی نے بچیوں کے حصول تعلیم کے لئے جس جوانمردی اور ثابت قدمی کی مثال قائم کی ہے میانوالی کی بہادر اور روشن دماغ بیٹی مشال نے اسے قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ سوات اور میانوالی کے طرز زیست اور طرز معاشرت میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ میانوالی بھی قبائلی روایات کا امین ہے۔ اب میانوالی میں لڑکیاں حصول تعلیم میں لڑکوں سے آگے ہیں۔ میانوالی کالج برائے خواتین میں جتنی پروفیسرز ہیں ان میں بہت اکثریت مقامی خواتین کی ہے۔ میری گذارش اسماعیل چاڑو اور ایسے دوسرے حضرات سے ہے کہ وہ اپنی سوچ بدلیں۔
پنڈی کی افسانہ نگار اور شاعرہ فرخندہ شمیم ”ادب سرائے“ کی چیئرمین بہت ممتاز شاعرہ اور ادبی شخصیت شہباز مزمل کی دعوت پر لاہور تشریف لائیں۔ بہت بڑی سماجی شخصیت اور جانی پہچانی ادب دوست شخصیت ظفر بختاوری بھی ساتھ تھے۔ انہوں نے بہت غیرروائتی طور پر تقریب کی شخصیت کے بارے میں باتیں کیں۔ انہوں نے جس نظم کے حوالے سے فرخندہ کے لئے تنقیدی بات کی۔ اسی نظم کی فرمائش کی۔ ظفر صاحب اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے صدر بھی رہے ہیں۔ جب جنرل قیوم کی طرف سے ڈاکٹر مجید نظامی کی یاد میں ایک سیمینار میں جسٹس آفتاب فرخ برادرم شاہد رشید عباس علی اور میں اسلام آباد گئے تھے تو سب خاطر مدارات ظفر بختاوری نے کی تھی اور بہت اچھی گفتگو بھی کی تھی۔ نوائے وقت کی کالم نگار اور بہت عمدہ شاعرہ عائشہ مسعود بھی اس حوالے سے سرگرم تھی۔ جنرل قیوم اب سنیٹر بن چکے ہیں۔ انہوں نے تقریر میں جو اشعار پڑھے اور نظامی صاحب کو یاد کیا تو مزا آ گیا۔
فرخندہ شمیم نے پی ٹی وی میں پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی شعر و ادب کی بہت خدمت کی۔ وہ بہت اچھے مزاج کی خاتون ہیں اور علمی ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہیں۔ فرخندہ کی بہت بھرپور تقریب میں ظفر بختاوری کے علاوہ ابصار عبدالعلی شاہد بخاری خالد نقاش، شہناز مزمل اور بولان ایوارڈ اکیڈمی کے صدر خلیق احمد نے گفتگو کی۔ صدارت کے لئے مجھے اعزاز دیا گیا۔ سفینہ چودھری نے بہت مربوط اور خوبصورت کمپیئرنگ کی۔ ان کے کئی اچھے جملوں پر خواتین و حضرات نے خوشی اور تحسین و تعریف کا اظہار کیا۔ فرخندہ شمیم حیران تھی کہ وہ ان کے لئے اتنا کچھ کیسے جانتی ہیں۔ شہناز مزمل کے علاوہ ادب سرائے میں ادبی محفلوں کے لئے بہت سرگرم ہیں۔ ماڈل ٹاﺅن میں فیض گھر اب سب اہل قلم کا گھر بن چکا ہے۔ فرخندہ شمیم کی طرح کئی ممتاز شخصیات یہاں مہمان ہوتی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن