• news

آبی ذخائر کی تعمیر زندگی موت کا مسئلہ ہے، 7 سال بعد پانی کا قحط پیدا ہو سکتا ہے: خواجہ آصف

لاہور(کامرس رپورٹر ) وفاقی وزیر پانی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پانی کی قلت سنگین مسئلہ ہے ہمیں ملکی بقا کیلئے پانی کو محفوظ رکھنا ہوگا، بجلی بحران پر تو تین سال میں قابو پالیں گے مگر پانی کا مسئلہ طویل مدتی ہے یہ دو تین سال میں حل نہیں ہوگا جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، حکومت پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد میں اضافے اور چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے جامع طویل المدتی منصوبہ بندی کر رہی ہے کیونکہ پاکستان تیزی سے پانی کے قحط والی صورتحال کی طرف بڑھ رہا ہے۔ آبی ذخائر کی تعمیر ہمارے لئے زندگی موت کا مسئلہ ہے پانی کا ضیاع بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے 7 سال بعد پانی کا قحط آجائے گا۔ دیامیر بھاشا ڈیم منصوبے کے لئے زمین کے حصول کیلئے 100ارب روپے جاری کر دئیے گئے ہیں، بین الاقوامی پارٹنرز نے بھی اس منصوبے کی تکمیل میں دلچسپی ظاہر کی ہے، ہمیں جس طرح دہشت گردی کے خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان کی ضرورت ہے وہاں ملک کو درپیش بحرانوں سے نمٹنے اور قومی ایشوز کے حل کیلئے نیشنل ایکشن پلان ضروری ہے۔ پانی اور بجلی کی قلت ماضی کی بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں سائوتھ ایشیا واٹر اینیشیٹو انڈس فورم کے تیسرے اجلاس سے خطاب اور بعدازاںمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر چیئرمین واپڈا ظفر محمود، وزیر مملکت و بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن ماروی میمن، چیئر پرسن ڈبلیو ای ایف نثار اے میمن سمیت غیر ملکی وفود بھی موجود تھے۔ خواجہ محمد آصف نے کہا کہ بھارت کے ساتھ پانی کے مسائل کو انڈس واٹر کمیشن سندھ طاس معاہدہ کے مطابق ڈیل کرتا ہے بھارت کے ساتھ پانی کے مسائل معاہدے کے مطابق حل ہوں گے اگر بھارت نے کہیں انکروچمنٹ کی تو حکومت اس معاملے کو دیکھے گی۔ پاکستان بھارت کے ساتھ آبی تنازعات حل کرنا چاہتا ہے اگر بھارت نے ہمارے آبی حقوق کی خلاف ورزی کی تو ہم اپنا مقدمہ مناسب فورم پر لڑیں گے۔ ہمیں جس طرح بجلی کی بچت کی ضرورت ہے اسی طرح پانی کے ضیاع کو روکنا بھی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے ہماری واٹر مینجمنٹ کاسٹ ریکوری صرف 20 فیصد ہے اور 80 فیصد ریکوری نہیں ہوتی، ہمارا آبپاشی کا طریقہ فلڈ اری گیشن ہے جسے تبدیل کر کے ڈرپ اری گیشن کا طریقہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ٹیوب ویل سے پانی نکالنے پر 3000 روپے جہاں لاگت آتی ہے وہاں اگر ہم نہری پانی استعمال کریں تو 100 روپے کا پڑتا ہے۔ گھریلو استعمال کے پانی سے جو ریکوری ہوتی ہے اس سے بھی نظام کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ ہر سال بدترین سیلاب آ رہے ہیں مگر ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود نہیں ٗ ہم اگر پاکستان میں آبی ذخائر بنانے کا سوچتے ہیں تو یہ معاملات گزشتہ 30، 40 سالوں سے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں جمہوری اور آمر حکمرانوں کے ادوار میں بھی ان مسائل کا حل نہ نکالا جا سکا۔ ہم تیزی سے پانی کے قحط والی صورتحال کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہم تیار نہیں قومی سطح پر بھی اس مقصد کا ادراک نہیں۔ حکومت جامع طویل المدتی پلان پر عمل پیرا ہے جس سے پانی کے ذخیرہ کی استعداد میں اضافہ ہو گا اور چھوٹے بڑے ڈیم بھی تعمیر کئے جائیں گے۔ حکومت دیامیر بھاشا ڈیم پر کام کر رہی ہے جس کیلئے 100 ارب روپے مالیت سے زائد کی زمین خریدی جا رہی ہے۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ملک سے بجلی کا بحران آئندہ دو سے تین سالوں میں ختم ہو جائے گا لیکن پانی ہمارے لئے سنجیدہ مسئلہ ہے جس کیلئے ہمیں توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تقریب سے چیئرمین واپڈا ظفر محمود، نثار اے میمن و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

ای پیپر-دی نیشن