سلمان تاثیر قتل کیس: ممتاز قادری کی302 کے مقدمہ میں سزائے موت برقرار، دہشت گردی ایکٹ کے تحت ختم
اسلام آباد (وقائع نگار+نوائے وقت نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق گورنر سلمان تاثیر قتل کیس میں ممتاز قادری کی سزائے موت کیخلاف اپیل مسترد کر دی۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس نورالحق قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ممتاز قادری کی سزائے موت کیخلاف اپیل پر 11 فروری 2015ء کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔ پیر کے روز عدالت کے جسٹس نور الحق قریشی اور جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل دورکنی بنچ نے درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا۔ فاضل عدالت نے مجرم کی اپیل پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت سزائے موت کالعدم قرار دے دی جبکہ دفعہ 302کے مقدمہ کے تحت ممتاز قادری کی سزائے موت کا حکم برقرار رکھا ہے عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ملزم ممتاز قادری نے سلمان تاثیر پر بغیر ثبوت گناہ کبیرہ کا الزام لگایا اور اسے قتل کیا عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ممتاز قادری نیک یا پرہیز گار تو ہو سکتا ہے لیکن قاضی نہیں ہوسکتا فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کون سے الفاظ توہین رسالت کے زمرے میں آتے ہیں اس کا تعین عدالت نے کرنا ہوتا ہے۔ عدالت نے مزید کہا ہے کہ اگر سلمان تاثیر نے کوئی غیر ذمہ دارانہ جواب دیا تھا تو معاملہ عدالت میں آنا چاہیے تھا۔ فیصلے میں مزید قرار دیا ہے کہ ممتاز قادری کے وکلاء فاضل عدالت کو اس بات پر قائل نہیں کرسکے کہ مقتول کو قتل کرنے کا کیا قانونی جواز ہے۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا سپریم قانون اسلامی قانون ہے اور ہمارے تمام قوانین طریقہ کار، قابل قدر یا تعزیری ہوں ان کی تشریح قرآن کے احکامات اور سنت رسول کے مطابق ہیں۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے بطور گواہ ملزم ممتاز قادری کے جرم کی تصدیق کی، گواہوں کی ممتاز قادری کے ساتھ کوئی دشمنی بھی ثابت نہیں ہوتی۔ وکیل صفائی نے بھرپور جرح کی لیکن یہ گواہ اپنے بیان سے ایک قدم آگے یا پیچھے نہیں ہٹے۔ دلائل میں ممتاز قادری کے وکلاء کا موقف تھا کہ جہاں تک فاضل عدالت نے ممتاز قادری کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت سزا دی، ہماری رائے میں ٹرائل کورٹ کے نتائج پائیدار نہیں ہیں۔ صرف ایک گواہ محمد عامر نے اس بات کی تصدیق کی کہ واقعے سے پبلک میں خوف اور دہشت پھیلی دوسرے کسی گواہ نے ایسے عمل کا ذکر نہیں کیا۔ حتٰی کہ تفتیشی افسر نے بھی کہیں دہشتگردی کا ذکر نہیں کیا۔ استغاثہ نے بھی کہیں دہشتگردی ثابت نہیں کہ بلکہ صرف مقتول کو قتل کرنے کو ثابت کیا گیا ہے۔ تاہم فاضل عدالت کو ملزم کا ٹرائل کرنے کا مکمل اختیار تھا۔ وکلاء کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو زیادہ سے زیادہ سزا سنادی جو کہ غلط اور خلاف ضابطہ ہے۔ ملزم کے وکلاء کا مزید موقف تھاکہ سلمان تاثیر کے عمل سے ممتاز قادری کے جذبات مجروع ہوئے اسے اکسایا گیا جس کی وجہ سے وہ خود پر قابو نہ رکھ سکا اور اس سے قتل عمد کا جرم سرزد ہوا ہے۔ واضح رہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو چار جنوری 2011 کو ان کی حفاظت پر مامور پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس سے تعلق رکھنے والے ممتاز قادری نے فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے یکم اکتوبر 2011 کو اس مقدمے میں اعترافِ جرم کرنے والے ممتاز قادری کو2بارسزائے کا حکم سنایا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مجرم کی درخواست پر سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا تھا ۔وفاقی حکومت نے ممتاز قادری کی سزا پر عمل درآمد کے خلاف تو ابھی تک عدالت عالیہ میں درخواست دائر نہیں کی لیکن سزا کے خلاف اپیل کی سماعت میں سرکاری وکیل پیش ہوتے رہے ہیں۔ گزشتہ روز سلمان تاثیر قتل کیس میں سزا کے خلاف ممتاز قادری کی اپیل کے فیصلے کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے اندر اور باہر سکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کئے گئے تھے جبکہ عدالت عالیہ اور ارد گرد کی عمارتوں پر کمانڈوز تعینات تھے۔ اس موقع پر ممتاز قادری کے حق میں نعرے بھی لگائے گئے۔ کراچی سے آئی این پی کے مطابق سربراہ پاکستان سنی تحریک محمد ثروت اعجاز قادری نے کہا ہے کہ ممتاز قادری کیس میں حکومت نے آئینی تقاضے عدالت میں پورے نہیں کئے، ہائی کورٹ میں ممتاز قادری کی پھانسی کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دینگے ۔