’’صاحبِ کرامات‘‘ مولانا فضل اُلرحمن؟
یہ ممکن نہیں ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر ’’Nine Zero‘‘ پر رینجرز نے چھاپہ مارنے سے پہلے وزیرِاعظم نواز شریف ٗ جنرل راحیل شریف ٗ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان اور جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف آپریشن کے ’’کپتان‘‘ وزیرِ اعلیٰ سِندھ سیّد قائم علی شاہ کو اندھیرے میں رکھا ہو!
NIne Zero - Fine Zero?
اور یہ بات بھی ماننے والی نہیں کہ نائن زِیرو میں پناہ گُزین جرائم پیشہ لوگوں کے بارے میں ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی اور اُس کی وساطت سے جناب الطاف حسین بھی بے خبر ہوں؟ نہ جانے کِس مُوڈ میں جناب الطاف حسین نے نائن زِیرو سے گرفتار ہونے والے ’’Wanted Criminals‘‘ سے یہ کیوں کہا کہ ’’چھاپے سے پہلے اگر تُم آگے پیچھے ہو جاتے اور کسی اور جگہ پناہ لے لیتے تو اچھا ہوتا۔ تُم نے تو نائن زِیرو کو خطرے میں ڈال دِیا ہے؟‘‘ اُدھر سابق صدر آصف زرداری صاحب نے بھی کمال کر دِیا کہ جب جناب الطاف حسین نے انہیں ٹیلی فون پر نائن زِیرو پر چھاپے کی اطلاع دی تو موصُوف نے اپنے بیان میں کہا کہ ’’سیاسی جماعتوں کے دفاتر کے تقدّس کا احترام کِیا جائے۔‘‘ جنابِ زرداری کے ایک ہم خیال شاعر نے کہا تھا ؎
’’جانتا ہُوں ترے تقدّس کو
پَر ترا احترام کرتا ہُوں‘‘
اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ۔ ’’قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسرا ن اور اہلکار اُن سیاسی جماعتوںکے دفاتر کی طرف مُنہ کر کے نماز بھی پڑھا کریں ٗ جہاں جرائم پیشہ عناصر نے پناہ لے رکھی ہو۔ جنابِ الطاف حسین کو اب حالات کی سنگینی کا اندازہ کر لینا چاہیے کہ اب ’’Nine Zero Fine Zero‘‘ نہیں رہا۔
’’صاحبِ کرامت‘‘۔ مولانا فضل اُلرحمن؟
حکومت اور (پاکستان تحریکِ اِنصاف کے سِوا) پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں کا پاکستان پیپلز پارٹی کے میاں رضا ربانی کو سینٹ کا مُتِفقہ طور پر چیئرمین مُنتخب کرانا حیرت کی بات ہے ٗلیکن اُس کے ساتھ ہی جمعیت عُلماء اسلام (ف) کے مولانا عبداُلغفور حیدری پر بھی بطور ڈپٹی چیئرمین سینٹ اتفاق ہونے سے یہ حیرت ’’دو آتِشہ‘‘ ہو گئی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے جناب وزیراعظم کو ڈپٹی چیئرمین شِپ کے لئے جو نام بھجوائے تھے وزیراعظم نے اُن میں سے مولانا حیدری کے نام کی منظوری دے دی۔ بعض سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’’مولانا حیدری کا ’’Plus Point‘‘ یہ ہے کہ وہ ’’بلوچ‘‘ ہیں۔ یعنی حیدری صاحب کا بلوچ ہونا اُن کے کام آ گیا۔ جنرل ضیاالحق (جالندھری) کے بہت ہی قریب ہو جانے والے شاعر جناب ضیاء جالندھری کو ’’تختہ ٔ سُخن‘‘ بناتے ہُوئے اُن کے کسی حریف شاعر نے کہا تھا کہ ؎
خُوش آ گئی ہے ضیائؔ کو جالندھری میری
وگرنہ شعر میرا کیا ہے؟ شاعری کیا ہے
شاید میاں نواز شریف نے بھی سینٹ کی چیئرمین شِپ کے لئے میاں رضا ربانی کے نام پر اِس لئے ’’نِکّی جیہی ہاں!‘‘ کر دی تھی کہ اُن کے نام کا سابقہ بھی ’’میاں‘‘ ہے؟ لیکن سب بڑے میاں تو ’’اللہ میاں‘‘ ہیں اور یہ اللہ میاں کی مرضی ہوتی ہے کہ جِس کو بھی چاہیں چھپڑ پھاڑ کر جو چاہیں عطا کر دیں۔ جو لوگ اِس آس پر اپنے گھر کا چھپڑ پھاڑ لیتے ہیں ٗ ضروری نہیں کہ اللہ میاں اُن کے پھاڑے ہُوئے چھپڑ کی لاج رکھ لیں؟ 4 فروری 2014ء کو مولانا حیدری نے اپنے ساتھی جناب محمد اکرم درانی کے ہمراہ وفاقی وزیر مملکت کی حیثیت سے حلفِ وفاداری اُٹھایا تھا اور موصُوف نے اگلے روز ہی سرکاری خرچ پر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پورا ایک مہینہ سعودی عرب میں قیام کِیا۔ لیکن اُن دُعائوں کی قبولیت کی گھڑی 12 مارچ کو دِن کے گیارہ بجے آئی۔
سیاست میں ’’Reservations‘‘ (تحفظّات) بھی خُوب ہوتے ہیں۔ مولانا فضل اُلرحمن نے جب اپنے اتحادی حکمران سے تحفظّات کا اظہار کِیا تو اُس نے دُور کر دیئے۔ اِس بار مولانا صاحب کو وزیرِاعظم نواز شریف سے اپنے تحفظّات دُور کرانے کے لئے اسلام آباد میں اپنے بڑے گھر میں اپنے سابق اتحادی جنابِ زرداری کی ’’دعوتِ سمر قند‘‘ کرنا پڑی۔ اگر جنابِ وزیرِاعظم پہلے ہی مولانا صاحب کے تحفظّات دُور کر دیتے تو انہیں مِیڈیا کی طرف سے ’’اِسراف‘‘ کا طعنہ نہ سُننا پڑتا۔ مناسب یہی ہے کہ مولانا کی ’’دعوتِ سمر قند‘‘ کے تمام اخراجات وزیرِاعظم صاحب اپنی جیب سے ادا کریں۔
مولانا حیدری کو ڈپٹی چیئرمین بنوا کر مولانا نے ایک بار پھر اپنا ’’ڈنکا‘‘ بجا دِیا ہے۔ فوجی صدر ہو یا مُنتخب وزیرِاعظم مولانا اپنی سیاسی مہارت سے ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ ہر کسی کو اُن کی ضرورت پڑتی ہے۔ ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’خُدا شکّر خورے کو شکّر ہی دیتا ہے۔‘‘ میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں مولانا صاحب اُن کے اتحادی تھے اوربعد ازاں محترمہ بے نظیر بھٹو کے۔ 2002ء کے عام انتخابات کے بعد ٗ قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) دوسری بڑی پارٹی تھی لیکن صدر جنرل پرویز مشرف نے اُن کو قائدِ حزبِ اختلاف مقرر کروا دِیا تھا۔
صدر پرویز مشرف کے دَور کے وفاقی وزیرِ پارلیمانی امُور ڈاکٹر شیر افگن کا قومی اسمبلی کے ایوان میںیہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’مولانا فضل اُلرحمن کو اِس لئے قائدِ حزبِ اختلاف بنوایا گیا تھا کہ وہ صدر جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں کی حمایت کریں گے۔‘‘ صدر آصف علی زرداری کے دَور میں پورے 5 سال تک مولانا صاحب وفاقی وزیر کی مراعات کے ساتھ چیئرمین کشمیر کمیٹی رہے اور اب بھی ہیں۔ اِس وقت جے یو آئی (ایف) کے جناب محمد اکرم درانی وفاقی وزیر اور مولانا محمد خان شیرانی چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ہیں۔ یہ مولانا فضل اُلرحمن کی کرامات نہیں ہے تو اور کیاہے؟ اُستاد جُرأتؔ نے کہا تھا ؎
’’آ گیا وہ بُت کافر تو کوئی دَم آج
شیخ صاحب کی کرامات نظر آتی ہیں‘‘
اِنشاء اللہ آئندہ بھی قوم کو اُن کی کرامات دیکھنا نصیب ہوں گی!
’’ترین امیر اور امیر ترین؟‘‘
خبر ہے کہ پنجاب کے نو مُنتخب سینیٹرز میں مسلم لیگ (ن) کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم ’’امیر ترین‘‘ اور وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید ’’غریب ترین‘‘ ہیں۔ خبر کے مطابق پرویز رشید صاحب کے پاس اپنی گاڑی نہیں اور نہ ہی اپنا گھر ٗ اُن کے پاس صِرف 2 لاکھ 34 ہزار روپے کے اثاثے ہیں۔‘‘ جناب پرویز رشید وفاقی وزیر کی حیثیت سے سرکاری بنگلے میں رہتے ہیں اِس لئے اُن کا اپنا گھر نہ ہونے کے باوجود انہیں ’’بے گھر‘‘نہیں کہا جا سکتا اور نہ ہی سرکاری گاڑی یا گاڑیوں کی موجودگی میں ’’بے گاڑی‘‘ اُن کے 2 لاکھ 34 ہزار روپے کے اثاثوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ موصُوف بقول جناب محمد اسحاق ڈار کے غُربت کی لکِیر کے نیچے زِندگی بسر کرنے والے 60 فی صد اُن لوگوں میں شامل نہیں ہیں جِن کی تنخواہ / آمدن 8 ہزار روپے ماہوار یا اُس سے کم ہے۔ وہ دوبار لکھ پتی اور 34 بار ہزار پتی ہیں۔ اِس کے باوجود موصُوف ’’غریب ترین‘‘ ہیں۔ فارسی زبان کا لفظ ’’تر‘‘ کلمۂ تفضِیل ہے جِس کے معنی ہیں ’’زیادہ‘‘ اور ’’ترین‘‘ کا مطلب ہُوا بہت ہی زیادہ۔ افغانوں/ پٹھانوں کے ایک قبیلے کا نام بھی ’’ترین‘‘ ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک مرکزی رہنما جناب جہانگیر ترین کو بھی ’’امیر ترین‘‘ کہا جاتا ہے۔ جماعتِ اسلامی کے امیر جناب سراج اُلحق سے جمعیت عُلماء اسلام (ایف) کے امیر مولانا فضل اُلرحمن ’’امیر ترین‘‘ ہیں۔