بھٹو کیس ’’ری اوپن‘‘ کیوں نہیں ہو سکا؟
جنرل راحیل شریف کو یہ کریڈٹ ضرور دِیا جاتا ہے کہ ٗ اُن کے دَور میں ہر قماش کے دہشت گردوں کے خلاف سنجیدگی سے آپریشن ہو رہا ہے۔ اِس آپریشن کا نام نبی کریمؐ کی تلوار ’’اَلعضب‘‘ کے نام پر ’’ضرب اُلعَضب‘‘ رکھا گیا ہے جو کامیابی سے جاری ہے ۔یہ الگ بات کہ دہشت گردوں کے ’’سہولت کار‘‘ اِس آپریشن سے بہت زیادہ ناخُوش ہیں۔
اور اب ’’ڈرون بُرّاق؟‘‘
’’لیزر گائیڈڈ میزائل ’’برق‘‘ کی ایجاد بھی بہت ہی خُوش کُن ہے لیکن ٗ دہشت گردوں کو تہس نہس کرنے کے لئے میزائل بردار ڈرون کا کامیاب تجربہ تو ڈھیروں مبارکباد کا مُستحق ہے۔ ’’برق‘‘ (بجلی) کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن شبِ معراج کو نبی کریمؐ کی سواری ’’برّاق‘‘ کے بارے میں خُود آپؐ نے فرمایا کہ ’’بُرّاق کا ایک قدم حدِ نگاہ تک رکھا جاتا تھا۔‘‘ احادیث میں درج ہے کہ جب ’’پیغمبر اِنقلابؐ‘‘ بُرّاق پر سوار ہوئے تو حضرت جبرائیلؑ نے کہا ’’اے بُرّاق! قسم پروردگار کی، تُجھ پر آج تک ایسا بلند مرتبت انسان سوار نہیں ہُوا۔‘‘ کیا فرماتے ہیں۔ عُلمائے دِین بیچ اِس مسئلے کے کہ ’’کیا دہشت گردوں کے خلاف ڈرون بُرّاق کا کامیاب تجربہ قائدِاعظم کے پاکستان میں امن و استحکام کے لئے ضروری تھا یا نہیں؟
چھوٹے گدھے کا ’’گدھا پن؟‘‘
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز چودھری اور جسٹس مقبول باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رُکنی بنچ میں ’’خفیہ فنڈ سے سِندھ پولیس کے لئے ایک ارب 23 کروڑ روپے کا اسلحہ اور بکتر بند گاڑیاں خریدنے کے معاہدے کے سکینڈل کیس‘‘ کی سماعت کے دوران یہ خفیہ معاہدہ ختم کر نے کا حُکم دے دِیا گیا ہے۔ اِس دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے انسپکٹر جنرل پولیس سِندھ کی طرف سے اپنے لئے پرائیویٹ وکیل سابق پی سی او جج جناب عرفان قادر کو پیش کرنے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل میران محمد شاہ کو گدھا گاڑی کے ساتھ باندھے ہُوئے ایک اضافی گدھے کی کہانی سُنائی۔ کہا کہ ’’سیالکوٹ والے بتاتے ہیں کہ ’’گدھا گاڑی کے ساتھ اگر اضافی گدھا یعنی چھوٹا گدھا باندھا ہُوا ہو تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ گاڑی کو صِرف میں کھینچ رہا ہُوں۔‘‘
اِس موقع پر سِندھ سے پیپلز پارٹی کے نو مُنتخب سینیٹر جناب فاروق ایچ نائیک نے اِنکشاف کِیا کہ ’’مَیں بھی کشمیری محلّہ سیالکوٹ کا رہائشی ہُوں اور وہاں میرا آبائی گھر بھی ہے۔‘‘ بہرحال سپریم کورٹ میں سیالکوٹ کے چھوٹے گدھے کا تذکرہ پاکستان کے ہر شہر کی گدھا گاڑی کے ساتھ باندھے گئے گدھے کے لئے باعثِ اِفتخار ہے۔ لیکن تانگے میں صِرف ایک ہی گھوڑا ہوتا ہے اضافی گھوڑا نہیں ہوتا۔ عام طور پر گدھے کو ’’بے وقوف‘‘ سمجھا اور کہا جاتا ہے اور کوئی بڑی عُمر کا شخص اپنی عُمر سے چھوٹے شخص کو ’’گدھا کہیں کا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے حالانکہ اُسے ’’گدھا یہیں کا‘‘ کہنا مناسب ہو گا۔ گدھا بڑا ہو یا چھوٹا گدھا ہی ہوتا ہے اور ہر عُمر کے گدھے میں اُس کی عُمر کے مطابق ’’گدھا پن‘‘ بھی ہوتا ہے۔ مِرزا غالب ؔ کہتے ہیں ؎
گدا سمجھ کے وہ چُپ تھا ٗ مری جو شامت آئی
اُٹھا اور اُٹھ کے قدم مَیں نے پاسباں کے لئے!
بعض مُحقّقِین کا دعویٰ ہے کہ مِرزا ؔ صاحب نے اپنے اِس شعر میں ’’گدھا‘‘ باندھا تھا‘‘ لیکن ’’گدا بندھ گیا۔‘‘ گدا یعنی گداگر (بھکاری) بڑا ہو یا چھوٹا، اُسے بھِیک دینے والے اُس کی عِزّت نہیں کرتے۔ لیکن جسٹس جواد ایس خواجہ نے صِرف چھوٹے گدھے کے گدھے پن کی کہانی سُنائی ہے۔
بھٹو کیس ’’ری اوپن‘‘ کیوں نہیں ہو سکا؟
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ڈویژن بنچ نے سابق وزیرِاعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کا کیس ’’Reopen‘‘ کرنے کی ایڈووکیٹ غازی عِلم اُلدّ ِین کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ درخواست میں یہ مؤقف اختیار کِیا گیا تھا کہ ’’وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹوکا عدالتی قتل کِیا گیا ہے اِس لئے اُن کے کیس کا ٹرائل ری اوپن کِیا جائے۔‘‘ فاضل عدالت نے ریمارکس دیتے ہُوئے کہا کہ ’’چونکہ درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں ہے لہٰذا یہ درخواست مسترد کی جاتی ہے۔‘‘ ایڈووکیٹ غازی عِلم اُلدّ ِین کی جنابِ بھٹو سے عقیدت اور محبت اپنی جگہ لیکن فاضل عدالت کے ریمارکس نے بھٹو صاحب کی سیاست کے علمبردار وُرثائ، مقتول بے نظیر بھٹو ٗ جناب آصف زرداری اور نواسۂ بھٹو چیئرمین بلاول پر بھرپور طنز ہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم سے صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری کے والد نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش میں ’’Principal Accused‘‘ (بڑے ملزم) کی حیثیت سے ’’قائدِ عوام ‘‘ اور ’’فخرِ ایشیا‘‘ جنابِ بھٹو کو 4 اپریل 1979ء کو پھانسی دے دی گئی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا کیس ری اوپن کرانے کے لئے اُن سیاسی وارثوں نے مُدّعی بن کر سپریم کورٹ میں درخواست کیوں نہیں دی؟
محترمہ بے نظیر بھٹو قتل کیس میں بھی جناب آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو فریق اور مُدعی نہیں ہیں۔ شاید جنابِ زرداری اور نواسۂ بھٹو عدالتوں میں پیش ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ ’’دُخترِ مشرق‘‘ کہلانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو امریکہ اور فوج سے مفاہمت کر کے دو بار وزیرِاعظم رہیں لیکن انہوں نے ’’زِندہ ہے بھٹو زِندہ ہے‘‘ کے نعرے لگانے کے سِوا کچھ نہیں کِیا اور 5 سال تک صدر کی حیثیت سے اپنی مدت پوری کرنے والے جناب آصف زرداری نے بھی زیادہ وقت بم پرُوف محل، بُلٹ پرُوف گاڑیوں اور مُلک سے باہر گزارا۔ اور نواسۂ بھٹو بھی 11 مئی 2013ء کے عام انتخابات سے پہلے ہی رُوپوش ہو گئے تھے۔ (اب بھی ’’Security Reasons‘‘ کے باعث مُلک سے باہر ہیں)۔ جنابِ زرداری نے لاہور ہائیکورٹ کے حُکم سے پارٹی کے شریک چیئرمین کا عہدہ چھوڑ دِیا لیکن صدارت بچا لی۔
نواب محمد احمد خان کے قتل کے تقریباً ایک سال بعد بیگم نُصرت بھٹو ماڈل ٹائون لاہور میں صاحبزادہ احمد رضا قصوری کے گھر گئیں تو قصوری صاحب نے مِیڈیا سے کہا کہ ’’بھائی کے گھر بہن آ گئی ہے اور مَیں نے بھٹو صاحب کو اپنے والد کا قتل معاف کر دِیا ہے۔‘‘ (قصوری صاحب کا یہ بیان قومی اخبارات میں شائع ہُوا تھا)۔ اُس کے بعد قصوری صاحب پیپلز پارٹی میں دوبارہ شامل ہو گئے تھے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو خُود قانون دان تھے اور اُن کی پارٹی میں ہزاروں کی تعداد میں سینئر اور جونیئر وُکلاء بھی ہیںلیکن کسی نے بھی لاہور کے کسی مجسٹریٹ کی عدالت میں قصوری صاحب کا یہ بیان ریکارڈ کرانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اِس قدر لاپرواہی کیوں؟
1977ء کے عام انتخابات میں وزیراعظم بھٹو نے صاحبزادہ احمد رضا خان قصوری کو پارٹی ٹِکٹ نہیں دِیا۔ قصوری صاحب نے اسے اپنی توہین سمجھا اور وہ جنرل ضیاء الحق کے اِقتدار سنبھالنے کے بعد پھراپنے والد کے قتل کیس میں مُدّعی بن گئے۔ پھر بھٹو صاحب کو پھانسی پر چڑھا دِیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے بعد جنابِ آصف زرداری نے تو بھٹو صاحب کی پاکستان پیپلز پارٹی کو ہی سیاسی مارکیٹ سے غائب کر دیا۔ اِس وقت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کا تعلق تو مخدوم امین فہیم کی پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز (پی پی پی پی) سے ہے۔ سپریم کورٹ رجسٹری کے ڈویژن بنچ نے ایڈووکیٹ غازی عِلم اُلدّ ِین کی درخواست مسترد کر کے بھٹو پھانسی کیس میں متاثرہ فریقین جناب آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو کو اِنصاف کے چراغ کی روشنی دکھا دی ہے کہ ’’آئو اور اگر واقعی جنابِ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ’’عدالتی قتل‘‘ تھا تو کیس ’’Reopen‘‘ کِیا جا سکتا ہے؟‘‘