میاں رضا ربانی کی ’’چوتھی کتاب؟‘‘
خبر ہے کہ’’وفاقی حکومت نے بیورو کریسی کی’’Annual Confidential Report‘‘ (سالانہ خُفیہ رپورٹ) سال کے بجائے ’’Monthly‘‘ (ماہوار) لِکھوانے کا فیصلہ کرلِیاہے قواعد کے مطابق ہر جونیئر بیورو کریٹ کی سالانہ خفیہ رپورٹ اُس کا سینئر آفیسر لِکھتا ہے اور اُس رپورٹ کی بنیاد پر ہی جونیئر بیورو کریٹ کی ترقی ہوتی ہے یاتنزّل؟
’’Daily Confidential Report !‘‘
مَیں نے دیکھا ہے کہ بعض نوکری پسند جونیئر بیورو کریٹس اپنے سینئر آفیسرز سے اپنی ’’اعلیٰ کارکردگی‘‘کی خفیہ رپورٹ لِکھوانے کے لئے’’مِنّت ترلا‘‘ کی آخری حدُود کو بھی چھُو لیتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی باغیرت جونیئر آفیسرز ہوتے ہیں جو اپنی غیرت کو نہیں بیچتے اور خُودسر اور مغرُور سینئر افسر کے گلے میں لعنت کا طوق ڈال کر نوکری چھوڑ دیتے ہیں ۔کسی پرائیویٹ شعبے میں چلے جاتے ہیںیا کوئی کاروبار کر لیتے ہیں۔
اب اگر ہر ماہ خفیہ رپورٹ لِکھوانے کے فیصلے پر عملدرآمد شروع ہُوا تو نہ صِرف’’ نوکری پسند‘‘ بلکہ غیرت مند بیورو کریٹس کے لئے پورا مہینہ گُزارنا مُشکل ہو جائے گا۔ صدرٗ وزیرِ اعظم گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کو وفاقی اور صوبائی وزراء کے خلاف خفیہ رپورٹس بھی بیورو کریٹس یا انٹیلی جنس ایجنسیاں بھجواتی ہیں۔ اُن کی مرضی ہے کہ وہ اِس طرح کی رپورٹس کو کوئی اہمیت دیں یا نہ دیں؟جو وفاقی اور صوبائی وزراء ہر شام الیکٹرانک مِیڈیا پر جناب وزیرِ اعظم اور جناب وزیرِ اعلیٰ کے سیاسی مخالفین پر دلِیل یا دلِیل کے بغیر ذاتی حملے کرکے انہیں عوام کی نظروں میں گِرانے کی’’صلاحیت‘‘ رکھتے ہوں وزیرِ اعظم صاحب اور وزیرِ اعلیٰ صاحب اُن وزراء کی کارکردگی’’Excellent‘‘ قرار دیتے ہیں اور اُس کے ساتھ ہی اُن وزراء کی’’Negtive‘‘ (منفی) رپورٹس ضائع کردی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے دونوں کندھوں پر دو فرِشتے ’’کراماً کاتبِین‘‘ بٹھا رکھے ہیں جو اُس انسان کی’’Daily Confidential Report‘‘ (روزانہ خفیہ رپورٹ) لِکھتے ہیں لیکن اُس شخص کو’’کراماً کاتبین‘‘ نظر نہیں آتے’’ کراماً کاتبین‘‘ کی روزانہ خفیہ رپورٹس کی بنیاد پر اُس شخص کے مرنے کے بعد اُس کی قبر میں دوسرے دو فرشتے’’مُنکر نکِیر‘‘ اُس سے حساب لیتے ہیں اور حتمی حساب روزِ حشر’’داورِ حشر‘‘ (اللہ تعالیٰ) کی عدالت میں ہوگا۔ اُس وقت بادشاہ فوجی اور جمہوری حُکمران سیاستدان مذہبی قائدِین اور ہر طبقے معزز اور غیر معزز لوگ اور 8 ہزار ماہوار تنخواہ/آمدن والے عام لوگوں کو اِنصاف کے ترازُو میں تولا جائے گا پھر کیا ہوگا؟ مَیں تو بہت گُنہگار ہُوں ۔ مجھے تو بہت خوف آتا ہے!
میاں رضا ربانی کی’’چوتھی کتاب؟‘‘
ادِیبہ ٗ شاعرہ اور صحافِیہ ٗ امِینہ عنبرِیں نے ٹیلی فون پر مجھ سے گِلہ کِیا کہ ۔’’ میاں رضا ربانی نے چیئرمین سینٹ مُنتخب ہونے سے ایک دِن پہلے اعلان کردِیا تھا کہ’’مَیں اپنی چوتھی کِتاب لِکھ رہا ہُوں‘‘ اِس لحاظ سے میاں صاحب پاکستا ن کے پہلے قائم مقام صدر بن گئے ہیں جو اپنا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی تین کتابوں کے مصنف ہیں لیکن آپ نے اِس خبر کو اپنے کالم کا موضُوع نہیں بنایا! کیوں ؟‘‘ مَیں نے عرض کِیا کہ مَیں نے وہ خبر پڑھی ہے لیکن میاں رضا ربانی صاحب نے یہ بھی کہا ہے ’’ فی اِلحال مَیں نے اپنی چوتھی کِتاب کا نام نہیں رکھا‘‘ مَیں نے مزیدکہا کہ’’ ہندوئوں اور سِکھّوں میں رواج ہے کہ بچے کی پیدائش کے کچھ دِن بعد رِشتہ داروں اور دوستوں کو مدعُو کر کے ایک تقریب مُنعقد کی جاتی ہے جِس میں بچے کا نام رکھا جاتا ہے اِس رسم کو ’’نام کرن‘‘ کہتے ہیں لیکن مسلمانوں کو بہت جلدی ہوتی ہے۔ بچے کی پیدائش سے پہلے لڑکا ہو گا یا لڑکی؟ اُس کی پروا نہیںکرتے زنانہ اور مردانہ دونوں نام پیشگی رکھ لیتے ہیں ۔مَیں حیران ہُوں کیا میاں رضا ربانی اپنی چوتھی کِتاب کا نام شائع اور مقبول ہونے کے بعد رکھیں گے؟
چیئرمین سینٹ ٗ قائم مقام صدر ٗ فوجی یا مُنتخب صدر کے لئے’’ صاحب ِکِتاب‘‘ ہونا ضروری نہیں ۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو جب چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالنے سے پہلے ہی ’’ صاحبِ کِتاب‘‘ تھے اُن سے پہلے صدور ۔ صدر سکندر مِرزا اور صدر جنرل یحییٰ خان نے کوئی کِتاب نہیں لِکھی تھی۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے اپنے اقتدار کے آخری دِنوں میں دوست مُلک امریکہ کو چیلنج کرتے ہُوئے ’’Friends , Not Masters‘‘ کے نام سے کتاب (خُودنوشت) لِکھی ‘ جِس کا اُردُو ترجمہ علّامہ اقبال کے مِصرع’’جِس رِزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے نام سے شائع ہُوا۔ علّامہ صاحب کے شعر کا پہلا مِصرع ہے’’ اے طائر لاہُوتی اُس رِزق سے موت اچھی ‘‘ علّامہ اقبال کا یہ شعر میاں نواز شریف اپنی وزارتِ عظمیٰ کے ہر دَور میں اپنی تقریروں میں استعمال کرتے ہیں ۔
جنرل پرویز مشرف کی کِتاب (خُود نوِشت)’’IN The Line O Fire‘‘ اُن کے دورِ اقتدار کے آخری دِنوں میں شائع ہُوئی ۔ جنابِ زرداری نے صدارت سے سبکدوش ہونے کے بعد بھی کوئی کِتاب نہیں لِکھی۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ’’ مَیں تو نان گریجویٹ ہو کر بھی صدر مُنتخب ہُوا اور ریٹائر بھی ہو گیا جب کہ خُود کو ’’قائدِ اِنقلاب‘‘ کہلانے والے علّامہ طاہر اُلقادری تو 550 کِتابوں کے مصنف ہونے کے باوجود 90 مُلکوں میں مارے مارے پھر رہے ہیں؟‘‘مجھے بابا ٹلّ نے خواب میں بتایا کہ علّامہ القادری ہر ہفتہ دو کتابیں لِکھ رہے ہیں بہر حال پاکستان کے عوام و خواص کو میاں رضا ربانی صاحب کی ’’چوتھی کِتاب‘‘ کی اشاعت کا اِنتظار رہے گا۔جناب فیض احمد فیضؔ کا ایک شعر ہے۔
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبانِ چمن!
تُم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام!
لیکن یہ شعر میاں رضا ربانی اور اُن کی چوتھی کِتاب پر صادق نہیں آتا۔ اِس لئے کہ میاں رضا ربانی’’غریبانِ چمن‘‘ میں سے نہیں ہیں لیکن اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی ’’چوتھی کتاب‘‘ کا کوئی اچھا سا نام ضرور رکھ لیں گے۔ ملک معراج خالد اُن دِنوں صدر ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ میں تھے جب انہوں نے اپنے ایک پمفلٹ کا نام ’’ضمیرکا بحران‘‘ رکھا تھا او کچھ دِن بعد ملک صاحب جناب ذوالفقار علی بھٹو کی عوام میں تیزی سے مقبول ہوتی ہُوئی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے تھے اور بعد ازاں وزیرِ اعلیٰ پنجاب اور قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے لیکن ملک صاحب پاکستان کے نگران وزیرِ اعظم اُس وقت بنائے گئے جب پاکستان پیپلز پارٹی کے صدرِ سردار فاروق احمد خان لغاری نے صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اپنی پارٹی لِیڈر وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تھی۔ میرا خیال ہے کہ میاں رضا ربانی اپنی ’’چوتھی کِتاب‘‘ کا نام ’’ضمیر کا بحران‘‘ نہیں رکھ سکیں گے ٗ کیونکہ جب اُنہوں نے30 جنوری کو آئین میں 21 وِیں آئینی ترمیم کے حق میں اپنے’’ضمیر کے خلاف‘‘ ووٹ دِیا تھا ۔ وہ بات تو پُرانی ہو گئی’’گذشت آنچہ گذشت ‘‘۔ مَیں نے یہ نام میاں رضا ربانی صاحب کی کِتاب کاتجویز نہیں کِیا۔ میرا مُفت مشورہ یہ ہے کہ میاں صاحب اپنی کِتاب کا نام ’’میاں رضا ربانی کی چوتھی کِتاب‘‘ ہی رکھ لیں۔یہ نام اُن کا اپنا ہی تجویز کردہ ہے۔ مَیں تو خواہ مخواہ ’’دخل در کِتابیات‘‘ کر رہا ہُوں اور ’’Royalty‘‘کا طلبگار بھی نہیں ہُوں۔