کسی کو عوام کی پروا ہے نہ مسائل سے دلچسپی، طبقاتی تفریق کے ذمہ دار ہم خود ہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت میں غیر ملکی سفارتخانوں کی جانب سے رکاوٹوں اور رہائشی پراپرٹی کے کمرشل استعمال سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے تمام تر تفصیلات سی ڈی اے کی ویب سائیٹ پر چڑھانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت اپریل کے پہلے ہفتہ تک ملتوی کردی ہے، جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ تمام غیر ملکی سفارخانے ملکی اور بین الاقوامی قوانین نے پابند ہیں، قانون کے سامنے کوئی چیز بااثر نہیں ہے، قانون سب سے زیادہ طاقتور ہے، ملک میں طبقاتی تفریق پیدا کرنے کے ہم خود ذمہ دار ہیں، امیر اور غریب کی تخصیص نے اسلامی اخوت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، امیر لوگوں کے پاس تو اپنی گاڑیاں ہیں ، اس لئے وہ سڑکیں چوڑی کر رہے ہیں جبکہ اسلام آبا دمیں غریب کی سواری رکشہ کو آنے کی اجازت ہی نہیں ہے ، بسوں کے اڈوں پر مرد عورتیں اور بچے خوار ہو رہے ہوتے ہیں، کیا یہ واقعی اسلامی جمہوریہ ہے ، جس میں مناسب فاصلوں پر عوام کے لئے بیت الخلاء کی سہولت تک نہیں ہیں ، ہنگامی حالات میں عورتیں کیا کریں؟ کیا گریڈ1سے لیکر گریڈ 5تک کے ملازمین کو بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے، ان میں سے کتنوں کو پلاٹس ملے ہیں ؟ اسلام آباد کے سارے سیکٹرز مراعات یافتہ طبقہ کے لئے ہیں،13سال تک آئی جی موٹر وے کو کسی نے پوچھا تک نہیں ہے، حکمران ادھورے محکمے بنا دیتے ہیں، موٹر وے پر جائیں تو کئی میل تک کوئی سہولت نہیں ملتی ہے۔ جسٹس جواد نے شہری علاقوں میں سفارت خانوں کے قیام اور غیر قانونی رکاوٹوں کے حوالہ سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب پاکستان میں جو کچھ بھی ہوگا وہ آئین اور قانون کے مطابق ہوگا ، یہ نہیں ہوگا کہ کوئی کہے کہ ہم دنیا کے چودھری ہیں اور پاکستان میں بھی اپنی مرضی کریں گے، ویانا کنونشن کے تحت ہم نے بھی دستخط کر رکھے ہیں اور انہوں نے بھی کر رکھے ہیں ، اس کے تحت تمام ممالک کی مراعات طے ہیں ، کوئی کہے کہ ہم نے ویانہ کنونشن پر دستخط تو کر رکھے ہیں،لیکن نہ اسے مانتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے آئین و قانون کے پابند ہیں ، تویہ دنیا کا ایک عجوبہ ہوگا، وکیل سی ڈی اے نے بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق اسلام آباد سے 72رکاوٹیں ہٹا دی گئی ہیں صرف 13مقامات جہاں پر گرجا گھر ، امام بارگاہیں اور سکول ہیں وہاں سے ضابطہ کے مطابق رکاوٹیں نہیں ہٹائی گئیں، جس پر جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ لاہور کے چرچ میں ہونے والے المناک سانحہ کے بعد اقلیتوں کے تحفظ کے لئے مزید انتظامات کرنے کی ضرورت ہے، حافظ ایس اے رحمان نے مزیدبتایا کہ سفارتی علاقوں سے رکاوٹیں ہٹانے کے حوالہ سے چیف پروٹوکول آفیسر اور ڈی جی ، فارن افیئرز کی مختلف سفارتخانوں کے اعلی حکام کے ساتھ میٹنگز چل رہی ہیں، تاہم وہ 23مارچ کویوم پاکستان کی تقریبات میں مصروف ہیں، اس لئے ایک ماہ کی مزید مہلت دی جائے ، جس پر جسٹس جواد نے کہا کہ سفارتخانوں کو تو کئی سال قبل ڈپلومیٹک انکلیو میں پلاٹس الاٹ کئے گئے تھے وہ اس محفوظ جگہ پر کیوں نہیں جاتے ہیں، عدالت نے سی ڈی اے حکام کو حکم دیا کہ اس حوالہ سے آئندہ سماعت پر عدالت میں رپورٹ پیش کریں ، سی ڈی اے کے شکایات سیل کے حوالہ سے جسٹس جواد نے کہا کہ یہ سیل بھی عوام کے ساتھ مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ جسٹس جواد نے ریمارکس دیئے کہ سی ڈی اے خود ہی اپنے کام کیوں نہیں کرتا ہے ؟ کسی کو بھی عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ، اور نہ ہی کسی کی پروا ہے لیکن تنخواہیں اسی عوام کی جیبوں سے لے رہے ہیں ، اگر یہ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے تو ہم حکم جاری کردیتے ہیں کہ اپنے گھروں کو چلے جائیں ، دوران سماعت حافظ ایس اے رحمان نے عدالت کو بتایاکہ اسلام آباد کے رہائشی علاقوں میں 22سو26 مکانات میں بیوٹی پارلرز ، سکول ، وکلا کے دفاتر، وغیرہ کام کر رہے ہیں ،جس پر درخواست گزار علی رضا ایڈوکیٹ نے بتایا کہ یہاں پر سی ڈی اے کے قوانین کی پاما لی کا یہ عالم ہے کہ آئی جی اسلام آباد ، آئی جی موٹر ویز ،پی ٹی آئی ،اور پاکستان مسلم لیگ سمیت تقریبا تمام سیاسی جماعتوں نے رہائشی علاقوں میں اپنے دفاتر قائم کر رکھے ہیں ،آئی جی اسلام آبا دکے آفس کی وجہ سے سیکٹر ایف سیون، ون کی ایک گلی مکمل طور پر بند ہے جبکہ آئی جی موٹروے کو سی ڈی اے نے 2002ء میں اس حوالہ سے نوٹس جاری ہوا تھا لیکن آج تک ان کا آفس وہیںپر قائم ہے۔